وزیر اعلیٰ پنجاب: مریم نواز کا مقابلہ کرنے والے رانا آفتاب کون ہیں؟

انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی سے کیا اور 1988 سے اب تک پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے کئی مرتبہ رکن منتخب ہوچکے ہیں۔

رانا آفتاب احمد خان کا تعلق فیصل آباد سے ہے (پنجاب اسمبلی ویب سائٹ)

مسلم لیگ ن کی وزیر اعلی پنجاب کے اہم عہدے کے لیے نامزد امیدوار مریم نواز شریف کا مقابلہ کرنے والے رانا آفتاب احمد خان پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں متعدد بار بحثیت رکن وقت گزار چکے ہیں۔

مریم کے مقابلے میں جو پہلی مرتبہ کسی ایوان کے لیے منتحب ہوئیں رانا آفتاب صوبائی سیاست اور اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل نے رانا آفتاب احمد خان کو امیدوار بنایا تھا تاہم کونسل نے وزیر اعلی کے انتخابی عمل کا مکمل بائیکاٹ کیا۔

انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے کیا اور 1988 سے 2002 کے درمیان پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے لگاتار تین بار کامیابی حاصل کی۔

انہوں نے 1994 سے 1995 تک وزیراعلیٰ پنجاب منظور وٹو کی صوبائی کابینہ میں صوبائی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنے تعلق کے دوران وہ جماعت کے پنجاب کے صدر اور پنجاب کے جنرل سیکرٹری جیسے اہم عہدوں پر فائز رہے۔

2017 میں انہوں نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شمولیت اختیار کی۔ وہ 2024 میں پنجاب اسمبلی کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے اور انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

وہ 3 اگست 1952 کو فیصل آباد میں ارشاد محمد خان کے گھر پیدا ہوئے جو 1977 کے پاکستانی عام انتخابات میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

انہوں نے 1973 میں وکالت یعنی ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور 1975 میں پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

وہ ایک پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ وہ متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کر چکے ہیں ایک مبصر کی حیثیت سے انہوں نے امریکی صدارتی انتخابات 1998 میں کا بھی مشاہدہ کیا۔

سیاسی زندگی

آفتاب نے 1988 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے حلقہ پی پی 52 (فیصل آباد) کی نمائندگی کرتے ہوئے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے پہلی بار منتخب ہونے کے بعد اپنے پارلیمانی کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے 34 ہزار 356 ووٹ حاصل کیے جبکہ آزاد امیدوار محمد اقبال ایوبی نے 30 ہزار 282 ووٹ حاصل کیے تھے۔

1990 کے انتخابات میں انہوں نے حلقہ پی پی 52 فیصل آباد-10 سے پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے امیدوار کی حیثیت سے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے مقابلہ کیا۔ تاہم انہیں اسلامی جمہوری اتحاد کے طالب حسین نے شکست دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1993 کے انتخابات میں وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے حلقہ پی پی 52 (فیصل آباد) کی نمائندگی کرتے ہوئے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر دوبارہ منتخب ہوئے۔ اس مدت کے دوران انہوں نے 1994 سے 1995 تک پنجاب کے وزیر اعلی منظور وٹو کی کابینہ میں صوبائی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔

2001 میں انہیں پیپلز پارٹی کا پنجاب کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا اور وہ 2006 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے لیے اتحاد کے دوران بینظیر بھٹو نے انہیں فیصل آباد میں پارٹی کا ڈویژنل صدر مقرر کیا۔ اس کے دوران انہوں نے پنجاب بھر میں متعدد احتجاجی ریلیوں کی قیادت کی۔ وہ پانچ سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔

وہ 2002 کے عام انتخابات میں تیسری بار حلقہ پی پی-63 (فیصل آباد-13) سے پی پی پی کے امیدوار کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر دوبارہ منتخب ہوئے۔  اس مدت کے دوران انہوں نے 2005 سے 2007 تک پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ان کا شمار سب سے زیادہ کل کر بولنے والے اپوزیشن رہنماؤں میں ہوتا تھا جنہوں نے پرویز مشرف کے دور حکومت میں پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ ق کا بلا خوف ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

2008 کے انتخابات میں انہوں نے حلقہ پی پی 63 فیصل آباد -13 سے پی پی پی کے امیدوار کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی کی نشست کے لیے مقابلہ کیا لیکن معمولی فرق سے ہار گئے تھے۔ اگر وہ جیت جاتے تو شاید کہا جاتا ہے کہ انہیں راجہ ریاض کی بجائے اس وقت کی پنجاب کابینہ میں سینیئر وزیر کی حیثیت سے عہدہ مل جاتا۔ 

اکتوبر 2008 میں پنجاب سے پیپلز پارٹی کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان کی بھاری اکثریت نے رانا آفتاب کو ووٹ دے کر پنجاب کا صدر مقرر کیا۔

ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد انہوں نے مئی 2010 میں پی پی پی پنجاب کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اخلاقی بنیادوں پر عہدے سے استعفیٰ دیا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد ان کے پاس پارٹی کے صوبائی سربراہ کی حیثیت سے برقرار رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

14 نومبر 2017 کو انہوں نے پیپلز پارٹی سے اپنی دیرینہ وابستگی ختم کرنے اور تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بظاہر شکایت تھی کہ گذشتہ کئی سالوں سے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاسوں میں انہیں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

اس وقت تک شاہ محمود قریشی، سردار آصف احمد علی، نذر محمد گوندل، مصطفی کھر، فردوس عاشق اعوان، امتیاز صفدر وڑائچ، راجہ ریاض، رانا زاہد توصیف، نوریز شکور، صمصام بخاری، اشرف سوہنا اور عامر ڈوگر جیسے نمایاں سیاست دان پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے تھے۔

2018 کے عام انتخابات میں انہوں نے حلقہ پی پی 108 فیصل آباد الیون سے پی ٹی آئی کے امیدوار کی حیثیت سے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے مقابلہ کیا تاہم انہیں مسلم لیگ ن کے محمد اجمل آصف نے شکست دی۔ تاہم انہوں نے 8 فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر فیصل آباد سے ایک مرتبہ پھر منتخب ہوگئے۔

انہیں 25 فروری کو تحریک انصاف یا سنی اترحاد کونسل نے وزیر اعلی کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست