پرانے زمانے کا ذکر ہے ایک بادشاہ اپنے مصاحب سے ناراض ہوا تو اسے ایک ہاتھی کا تحفہ دے دیا، درباریوں نے پوچھا شہنشاہ کا اقبال بلند ہو، ناراضگی پر ہاتھی کا تحفہ؟ تو بادشاہ نے جواب دیا ہاتھی کی خوراک اور رہنے سہنے کا بندوبست کرتے کرتے مصاحب کنگال ہو جائے گا، ہماری ناراضگی بھی ظاہر نہیں ہو گی اور گستاخی کی سزا بھی مل جائے گی۔
ایسا لگتا ہے مملکت خداداد پاکستان میں یہی ہورہا ہے، 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پنجاب کے سنگھاسن پر بٹھانے کے لیے جب موزوں ترین شخصیت کی تلاش شروع ہوئی تو وزیراعظم عمران خان اپنی دانست میں گدڑی سے ایسا لعل ڈھونڈ کر لائے کہ سب دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ گئے۔
ڈیرِہ غازی خان کے قبائلی علاقے سے سیاسی میدان میں نسبتاً غیر معروف سردار عثمان بزدار کو نہ صرف پنجاب کی خلعت فاخرہ عطا کی بلکہ ’وسیم اکرم پلس‘ کا لقب بھی دے ڈالا۔
اندر کی خبر رکھنے والے جانتے ہیں ابتدا میں شاہ محمود قریشی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ میں شامل تھے لیکن ان کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں۔
یہ بھی سننے میں آیا کہ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی کی خواہش میں ظالم سماج بن گئے۔اب یہ تو سب کو ہی اندازہ ہے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے تعلقات کھٹَے میٹھے ہی رہتے ہیں تو جہانگیر ترین اُس وقت جیت گئے اور شاہ صاحب کو وزارتِ خارجہ پر اکتفا کرنا پڑگیا۔
یوں عثمان بزدار وزیر اعلیٰ تو بن گئے لیکن صوبے کے امور چلانے کے لیے انہیں نہ صرف ٹریننگ سیشن لینے پڑے بلکہ چالیس حکومتی ترجمانوں کے ساتھ چلنا پڑا۔
ساتھ ہی ڈاکٹر شہباز گِل بھی اندرون خانہ ترجمان کم وزیراعلیٰ بن گئے،جن کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا تھا۔
ترجمانی وزیراعلیٰ کی کرنی تھی خود نمائی اپنی کرتے رہے۔ اپنے تئیں صوبائی محکموں میں چھاپے مارنے کے اختیارات بھی حاصل کرلیے۔
ساتھ ساتھ بزدار صاحب کو بھی مسکہ لگاتے رہے کہ کہیں صاحب کو کچھ برا نہ لگ جائے۔ کچھ روز پہلے زبان پھسلی یا الفاظ پر کنٹرول نہ رہا یہ بھی کہہ گئے کہ اگر وزیراعظم صاحب نے وزیراعلیٰ کو گھر بھیجنے کا حکم دیا تو بزدار صاحب بارہ گھنٹوں میں اپنا راستہ ناپ لیں گے لیکن خود کا ہی پیک اپ ہوگیا۔
پنجاب کی دوسری وکٹ وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست عون چوہدری کی گری اور خیال یہی کیا جارہا ہے کہ ان دونوں کے بارے میں شکوے شکایتیں وزیراعلیٰ صاحب نے ہی وزیراعظم صاحب سے کیں۔
دوسری جانب عثمان بزدار کی ایک برس کی کارکردگی بھی خاصی مایوس کن رہی ہے، وزارت اعلیٰ کی پچ وسیم اکرم پلس کو زیادہ راس نہ آئی،صرف ایک سال کے عرصے میں بدانتظامی اور بدامنی کی اتنی باؤنڈریز کھائی ہیں کہ ایک بار پھر پارٹی کے اندر سے ہی انہیں میدان سے ہٹا کر ڈریسنگ روم میں بٹھانے کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔
اگر صرف امن و امن کی صورت حال پر بزدار صاحب کی سالانہ رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کامیابیاں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہاں زینب قتل کیس اور ساہیوال میں انکاؤنٹر کے نام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ایک خاندان کی المناک موت ان کے لیے بدنما داغ ضرور بن چکی ہے۔
رہی سہی کسر بد مست ہاتھی کی طرح بے قابو پنجاب پولیس نے پوری کردی۔تھانوں میں قیدیوں پر تشدد، صوبے میں غیر قانونی عقوبت خانوں کی بھرمار، شہریوں سے بد تمیزی کے پے درپے واقعات نے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔
دوسری طرف سٹریٹ کرائم اور ڈکیتیوں کا جن بھی بوتل سے باہر نکل کر آدم بو آدم بو پکار رہا ہے لیکن وزیراعلیٰ صاحب نوٹس پر نوٹس لینے کے علاوہ کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے معذور نظر آرہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک تو وزیراعظم عمران خان کئی کمزوریوں کے باوجود بزدار صاحب کی ہمت بندھاتے آئے ہیں، کئی محافل میں ان کے نام کے قصیدے بھی پڑھتے رہے ہیں لیکن اب دو سے تین بار ایسا ہوچکا ہے کہ انہیں وزیراعظم ہاؤس طلب کیا گیا اور حکومتی کارکردگی پر جواب طلبی ہوئی۔
ایسا لگتا ہے عمران خان طویل عرصے تک اپنے فیصلے کی لاج رکھنا چاہتے ہیں لیکن پارٹی کے ساتھ ساتھ طاقت ور حلقوں نے شاید کہنا شروع کردیا ہے جی کا جانا ٹہر گیا، آج گیا، کل گیا۔
پنجاب میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ صرف یہیں تک نہیں رکی ہے، یہ خبریں بھی گرم ہیں اگلے چند روز میں مزید چھانٹی کی جائے گی۔
کچھ روز پہلے فردوس عاشق اعوان بھی روانی میں کہہ گئیں جو پنجاب میں کارکردگی نہیں دکھائے گا وہ گھر جائے گا۔
اب عثمان بزدار جائیں گے یا رہ جائیں گے یہ ابھی واضح نہیں لیکن یہ کوئی نہیں جانتا ان کو یہاں تک لایا کون تھا۔
کسی پردہ نشین نے بزدار صاحب کی سفارش کی تھی یا پردے کے پیچھے سے کسی اور نے ان کے نام کا قرعہ فال نکالا تھا؟ اور وہ پردہ نشین اب کون سا چلہ کاٹ کر بزدار صاحب کو بچائے گا۔