آخر کار مریم نواز نے وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھا ہی لیا۔ سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر ہمارے لیے یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ اس وقت ایک عورت کے پاس ہے۔
ہمارے کچھ بہت پیارے دوست دور کی کوڑی لائے اور انہوں نے مریم صاحبہ کی وزارت اعلیٰ کے ڈانڈے جا کے رانی جنداں کور سے ملا دیے۔ ایسے لوگ کسی بھی چیز کو کسی بھی چیز سے ملا دیتے ہیں۔
اتفاق دیکھیے کہ نئی وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے سے پہلے (یقیناً اتفاق ہی ہو گا) اچھرے میں حلوے کا واقعہ ہو گیا۔
جانے واقعہ تھا یا سانحہ مگر ایک خاتون وزیر اعلیٰ کے لیے اس طرح کے واقعات صرف امن و امان کی صورت حال نہیں ایک پورا مائنڈ سیٹ ہے جو ان کے راستے میں کھڑا ہے۔
مریم صاحبہ نے اپنی تقریر میں بہت اچھے اچھے وعدے کیے۔ وعدے کرتا ہوا شخص بہت اچھا لگتا ہے۔
مسئلہ وہاں آتا ہے جو وعدہ وفا ہونے کا وقت آتا ہے۔ خواب اور تعبیر کے درمیان ہمیشہ کوئی ٹانگ اڑا جاتا ہے۔ خدا کرے اس بار ایسا نہ ہو، ہم دعا ہی کر سکتے ہیں۔
خواتین کے مسائل بے شمار ہیں۔ خاص کر پنجاب میں، جہاں دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں عورتوں کی معاشی اور سماجی شمولیت کے بغیر بات نہیں بنتی۔
دیہات میں عورت زرعی معیشت کا لازمی جزو ہے، اس کی صحت، تعلیم اور تحفظ کے بے شمار مسائل آج بھی اسی طرح منہ پھاڑے کھڑے ہیں جیسا کہ صدیوں سے ہیں۔
پنجاب کے زرعی معاشرے میں آج بھی بہت سے خاندانوں میں بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا یا جائیداد کی وجہ سے وٹہ سٹہ کر دیا جاتا ہے۔
جہاں حصہ دیا بھی جاتا ہے وہاں بھی لولا لنگڑا حصہ، جس کے ساتھ بھائیوں کے مسلسل دشمنی بھی ملتی ہے۔
حصہ مل جائے تو شوہر اور بیٹے کھا جاتے ہیں، وہاں سے بچ جائے تو باہر بھی دنیا منہ پھاڑے کھڑی ہے۔
شہباز شریف صاحب نے اس ضمن میں بہت مضبوط قانون سازی کی لیکن زمین کا قبضہ لینے اور اس قبضے کو قائم رکھنے کے لیے بھی مزید مضبوط فریم ورک دینے کی ضرورت ہے۔
متوسط طبقے کی ملازمت پیشہ خواتین کے لیے، ڈے کیئر، زچگی کی طویل چھٹیاں، کام کے ماحول کا ہراسانی سے پاک رکھنا، علیحدہ اور صاف باتھ روم، برابر کا پے سکیل، ذرائع آمدورفت کی آسانیاں اور دیگر مسائل اب بھی بہت سی تفصیلات کے متقاضی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گلیوں، محلوں، بازاروں میں جو مائنڈ سیٹ، کھجاتا، تھوکتا، گھورتا، عورتوں کے لباس تاڑتا، ان سے معافیاں منگواتا پھر رہا ہے، اس کا بھی مکمل تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔
پنجاب کی عورت بہت سمجھدار اور مضبوط ہے، پنجاب کی روایات بھی عورت کی عزت سے عبارت ہیں۔
ہر روایت بری نہیں۔ روایات کی آڑ میں شکار کھیلنے والے لوگ برے ہیں۔ ان کو آئینہ دکھانے سے کام بن سکتا تو کب کا بن چکا ہوتا۔ ضرورت اس سوچ کو تبدیل کرنے کی ہے۔
سوچ، مزاج اور گلی محلوں کا ماحول ایسی چیز نہیں جسے اٹھا کے پھینک دیا جائے اور اس کی جگہ ایک نئی چیز لا کر سجا دی جائے۔ یہ ایک سست رو، مسلسل عمل کا نام ہے۔
کام بہت زیادہ ہے، مگر کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہی ہے، کسی نہ کسی نے کرنا ہی ہے اور کبھی نہ کبھی تو ہونا ہی ہے تو کیوں نہ اب ہی، اسی دور میں شروع ہو جائے۔
مارچ کے اس مہینے میں وومنز ڈے بھی آتا ہے۔ چند روز تک وومن مارچ بھی ہو گا۔ نت نئے پلے کارڈز بھی سامنے آئیں گے۔ ان پلے کارڈز کے جواب میں ردعمل بھی سامنے آئے گا۔
ممکن ہے آنے والے برسوں میں یہ معاملات ایسے نہ رہیں، پلے کارڈز پہ لکھے مطالبات پہ ردعمل دینے کی بجائے، ان کو سمجھا جائے، خواتین کو یہ بتانے کی بجائے کہ ان کے اصل مسائل کیا ہیں، ان کے مسائل کو حل کیا جائے۔
یہ سب اور بہت سے خواب، فی الحال صرف خواب ہیں، وعدے فی الحال صرف وعدے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پانچ برس بعد جب مارچ کا مہینہ آئے گا تو پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ کی قیادت میں پنجاب کی عورت کہاں ہو گی؟
پیوستہ رہ شجر سے۔۔۔۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔