خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیویز اور خاصہ دار فورسز نے صوبائی اسمبلی سے نئے منظور شدہ خاصہ دار ایکٹ 2019 کے خلاف باجوڑ کے بعد ضلع مہمند میں بھی احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔
خاصہ دار فورس نے اس ایکٹ کو یکسر مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے شاطرانہ چال چلا کر خاصہ داروں اور لیویز کو اپنے حقوق سے محروم کر دیا ہے نتیجتا خاصہ داروں نے ایک کمیٹی بنا کر تمام قبائلی اضلاع میں احتجاج شروع کرنے کی دھمکی دی تھی۔ جس کی ابتدا ہفتے کے روز باجوڑ سے ہوئی۔
اتوار کو ضلع مہمند میں احتجاجی تقریب منعقد کی گئی جس میں ایم این اے، ایم پی ایز اور ڈی پی او کے علاوہ ضم شدہ اضلاع کے خاصہ دار فورسز کے چیئرمین سید جلال وزیر اور سینکڑوں کی تعداد میں لویز اور خاصہ دارموجود تھے۔
اس موقع پر مقررین نے خاصہ دار فورسز ایکٹ 2019 کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
اس دوران خاصہ دار فورسز کی کمیٹی نے کل (پیر) سے ضلع خیبر اور دوسرے ضم شدہ اضلاع تک احتجاج بڑھانے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آل فاٹا خاصہ دار فورسز کے چیرمین سید جلال وزیر نے اس موقع پر تمام اضلاع میں تعینات پولیس اہلکاروں کو علاقہ چھوڑنے کی الٹی میٹم دیا ہے۔ اس دوران قبائلی علاقوں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران نے خاصہ دار فورسز کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
جمعرات کے روز خاصہ دار ایکٹ 2019 پیش کرنے کے بعد صوبائی حکومت نے وضاحت کی کہ لیویز اور خاصہ داروں کے تحفظ کے لیے موجود عارضی آرڈیننس کی جگہ اس ایکٹ نے لے کر قبائلی فورس کو باقاعدہ طور پر پولیس میں ضم کرکے انہیں مستقل بنیادوں پر قانونی تحفظ دے دیا ہے۔ تاہم اس دوران نہ صرف اسمبلی میں اپوزیشن کی طرف سے اس کی مخالفت میں کافی شور اٹھا بلکہ اس کے اگلے دن آل فاٹا خاصہ دار فورس کی کمیٹی نے تمام قبائلی اضلاع میں احتجاج مارچ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے باجوڑ میں خاصہ دار فورس کمیٹی کے وائس چئیرمین ملک مظہر آفریدی سے پوچھا کہ آخر ان کے احتجاج کی وجہ کیا ہے اور کیا انہوں نے اسمبلی سے پاس شدہ بل کا پورا ڈرافٹ پڑھا ہے؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ڈرافٹ انہوں نے نہیں پڑھا ہے لیکن انہیں اطلاع ملی ہے کہ بل کا اصل صفحہ ہوم ڈیپارٹمنٹ والوں کے پاس ہے جس تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ایک خاصہ دار کو 40 سال کی عمر میں ریٹائر کر دیا جائے گا۔ جب کہ حال یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ خاصہ داروں اور لیویز کی عمریں 40 سال سے زیادہ ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’تمام قبائلی اضلاع میں 30 ہزار سے زیادہ لیویز اور خاصہ دار ہیں۔ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ان سب کو پولیس ایکٹ 2017 کے تحت پولیس میں ضم کرے گی۔ اس حوالے سے ہمارے 22 نکات پر مشتمل مطالبات کے مسودے پر آئی جی پولیس اور وزیر اعلی بھی مان گئے تھے لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ نئے ایکٹ کے تحت اب ہم نہ صرف ڈی پی او بلکہ ڈپٹی کمشنر کے بھی ماتحت ہوں گے۔ ایک کہے گااس کی بات مان لی جائے دوسرا کہے گا اس کی مرضی تسلیم کی جائے۔ ہم چاہتے تھے کہ ہمیں پولیس ایکٹ کے تحت وہی اختیارات اور مراعات دی جائیں جو باقی صوبے کی پولیس فورس کو میسر ہیں۔‘
ملک مظہر نے کہا کہ انہیں یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ انسپکٹر جنرل نعیم خان کا تبادلہ کر لیا گیا ہے۔ ’مہینوں پہلے جب ہم سابقہ آئی جی صلاح الدین کے ساتھ ایک فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ گئے تو ان کا تبادلہ ہوا۔ ان کے بعد تمام معاملات پر نعیم خان کے ساتھ بات چیت ہوئی ۔ اس موڑ پر آکر ان کا تبادلہ مایوس کن ہوگا۔ ہمیں تو اس بات پر بھی شک ہے کہ آخر کیوں اتنی عجلت میں ایک نیا ایکٹ منظور کر لیا گیا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے خاصہ دار ایکٹ کے حوالے سے خاصہ داروں اور لیویز کی شکایات صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کے سامنے رکھیں تو انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ پڑھتے نہیں ہیں۔ ’اس روز اسمبلی میں جب اپوزیشن نے اس ایکٹ کی مخالفت شروع کی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آخر مخالفت کس چیز کی ہے؟ پہلے مسودہ پڑھ لیں۔ ہم نے پہلے سے جاری آرڈیننس کو ہی ایکٹ کی شکل دی ہے۔ یعنی اس کو جوں کا توں رکھا ہے۔ یہ آرڈیننس انٹرنیٹ پر موجود ہے ۔ کوئی بھی اسے پڑھ سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ 12 ستمبر کو یہ آرڈیننس ایکٹ میں اس لیے تبدیل کر دیا گیا کہ اس کی 6 مہینے کی مدت ختم ہو گئی تھی ۔اگر اسے ایکٹ کی شکل نہ دیتے تو خاصہ داروں اور لیویز کو مسائل کا سامنا ہوتا۔ پھر بھی اگر اس ایکٹ میں کسی بات پر انہیں اعتراض ہے تو اس میں ترمیم کی گنجائش موجود ہے۔‘
وزیر اطلاعات نے مزید بتایا کہ خاصہ دار اور لیویز فورس کو وفاق سے صوبے کے نظام میں شامل کرنے کے لیے پہلے انہیں اپنی ایک جداگانہ حیثیت دینی لازمی تھی۔ ’اس ایکٹ کے قواعد و ضوابط پر چند ہی ہفتوں میں کام شروع کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد تربیت، طریقہ کار، عہدے سمیت دیگر کئی امور کی وضاحت ہو جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’خاصہ داروں کی شکایات مغالطوں، مبالغوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن کی طرف سے بھی ایک منفی پروپیگنڈہ چل رہا ہے جس کا خود قبائلیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘