اٹلی میں دریافت ہونے والے فلکیاتی آلے پر عربی اور عبرانی عبارتیں

فلکیات کی پیمائش کے لیے بنائے گئے اس آلے پر موجود تحریروں سے معلوم ہوا کہ یہ 11ویں صدی میں سپین کے مسلم دور حکومت میں بنایا گیا تھا جس کو آسمانی نقشوں کے ساتھ ساتھ نمازوں کے اوقات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

ویرونا آسٹرولیب کا کلوز اپ جس میں عربی اور عبرانی تحریریں موجود ہیں (ڈاکٹر فیدریکا گیگانتے)

ماہرین آثار قدیمہ نے اٹلی سے 11ویں صدی کا ایک ایسا نایاب اسلامی فلکیاتی آلہ دریافت کیا ہے جس پر عربی اور عبرانی دونوں زبانوں میں تحریریں موجود ہیں جو اس طرح کے قدیم ترین آلات میں سے ایک ہے۔

یہ آسٹرولیب، جسے فلکیاتی پیمائش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، کو اٹلی میں شناخت کیا گیا اور یہ دنیا میں موجود چند ایسے آلات میں سے ایک ہے۔

محققین کے مطابق یہ سینکڑوں سالوں کے دوران عربوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان سائنسی تبادلے کا ایک ’مضبوط ثبوت‘ ہے۔

اس آلے کی شناخت اٹلی کے شہر ویرونا کے ایک میوزیم میں کیمبرج یونیورسٹی کی ہسٹری فیکلٹی سے وابستہ ڈاکٹر فیدریکا گیگانتے نے کی تھی جن کا کہنا ہے کہ اب یہ میوزیم کے نوادرات میں واحد سب سے اہم چیز ہے۔

آسٹرولیبز دنیا کے پہلے پاکیٹ سائز کمپیوٹرز تھے جس نے کائنات کا ایک پورٹیبل ٹو ڈائیمینشنل ماڈل فراہم کیا جو استعمال کرنے والے کے ہاتھ میں پورا آ جاتا تھا جس سے وہ وقت، فاصلے کا حساب کتاب اور ستاروں کی پوزیشن کا پتہ لگا سکتے تھے۔

ڈاکٹر فیدریکا گیگانتے نے کہا کہ جب میں نے میوزیم کا دورہ کیا اور آسٹرولیب کا قریب سے مطالعہ کیا تو میں نے دیکھا کہ نہ صرف اس پر خوبصورتی سے عربی نوشتہ جات کندہ ہیں بلکہ اس پر عبرانی زبان میں تحریر بھی موجود تھی۔

ان کے بقول: ’میں انہیں کھڑکی سے داخل ہونے والی روشنی کی مدد سے دیکھ پا رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ میں خواب دیکھ رہی ہوں لیکن میں اسے دیکھتی ہی رہ گئی، یہ بہت دلچسپ تھا۔

ڈاکٹر فیدریکا گیگانتے نے اس کے ڈیزائن، بناوٹ، خطاطی اور سائنسی خصوصیات کا تجزیہ کرکے ’ ویرونا آسٹرولیب‘  کی تخلیق کی تاریخ اور اس کے مقام کا پتہ لگایا۔

انہیں معلوم ہوا کہ اس آلے پر موجود کندہ کاری اندلس (سپین میں مسلمانوں کے دور) سے ملتی ہے۔

اس آلے کی پشت پر سکیل کی ترتیب سے معلوم ہوا کہ یہ 11ویں صدی میں سپین کے مسلم دور حکومت یعنی اندلس میں بنائے گئے آلات سے ملتے ہیں۔

آلے پر پائے جانے والے نوشتہ جات کی بنیاد پر ڈاکٹر گیگانتے کو شبہ ہے کہ یہ طلیطلہ (قدیم اندلس کے شہر) میں اس وقت بنایا گیا جب یہ شہر مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان بقائے باہمی اور ثقافتی تبادلے کا فروغ پزیر مرکز تھا۔

آسٹرولیب پر نمازوں کے نام  اور لائنز بھی درج ہیں جو ممکنہ طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کے صارف انہیں پانچ وقت کی نمازوں کے اوقات جاننے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس میں عبرانی نام بھی شامل کیے گئے تھے جن کے ترجمے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اندلس یا شمالی افریقہ سے باہر بھی پہنچ چکے تھے اور اٹلی میں یہودیوں کے ذیر استعمال بھی تھے جہاں عربی نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ عبرانی استعمال کی جاتی تھی۔

علم نجوم کی علامتوں کے لیے عربی ناموں کے عبرانی ترجمے بھی تھے جن میں برج عقرب، برج قوس، برج جدی، برج دلو، برج حوت اور برج حمل شامل تھے۔

ویرونا آسٹرولیب میں ایک چھید شدہ ڈسک ہے جو آسمان کے نقشے کی نمائندگی کرتی ہے اور جو اندلس میں بنائی گئی قدیم ترین ڈسک میں سے ایک ہے۔

یہ آلہ 1062 عیسوی میں بنائے گئے واحد پائے گئے بازنطینی آسٹرو لیب کے ساتھ ساتھ سپین کے اسلامی ماڈل پر بنائے گئے قدیم ترین یورپی آسڑولیبز کے ساتھ بھی مماثلت رکھتا ہے۔

اس آلے کا مزید تجزیہ کرتے ہوئے معلوم ہوا ہے کہ اس سے  اس زمانے میں وقت کا اندازہ اور آسمان کی پوزیشن کا پتہ لگایا جا سکتا تھا۔

ایسا کرنے سے محققین نے حساب لگایا کہ اس کی ڈسکیں اس پوزیشن میں رکھی جاتی تھیں کہ اس سے یہ حساب کیا جا سکے کہ 11ویں صدی کے آخر میں ستارے آسمان پر کس مقام پر تھے۔

ڈاکٹر فیدریکا گیگانتے نے کہا کہ یہ آلہ اسلامی، یہودی اور یورپی ہے، انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق