پاکستان نے جمعرات کو اقوام متحدہ پر ایک بار پھر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے جدید عسکری سازوسامان کیسے حاصل کیا اور یہ بھی کہ اس تنظیم کی مالی اعانت کے ذرائع کی نشاندہی کی جائے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل میں افغانستان کے حوالے سے بریفنگ کے دوران مطالبہ کیا کہ ٹی ٹی پی کے اسلحے کے ذرائع کے ساتھ ساتھ اس کی مالی اعانت کے ذرائع کی نشاندہی کی جائے، ’جس کی وجہ سے اس کے 50 ہزار جنگجوؤں اور ان کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں مدد مل رہی ہے۔‘
منیر اکرم نے اقوام متحدہ سے کہا کہ ’وہ افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرے اور انہیں پاکستان کے خلاف سرحد پار سے حملے کرنے سے روکے۔‘
پاکستان کے مستقل مندوب کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان افغانوں کے لیے انسانی امداد، تجارت اور ترقی کے لیے بنیادی راستہ فراہم کرتا رہے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان اور افغانستان کی تقدیر آپس میں جڑی ہوئی ہے اور پاکستان کے لیے امن، سلامتی اور خوشحالی ناگزیر ہے۔‘
پاکستانی مندوب منیر اکرم نے متنبہ کیا کہ ’اگر عالمی ادارے نے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کو نہ روکا تو ٹی ٹی پی، جسے القاعدہ اور کچھ ریاستی سرپرستوں کی حمایت حاصل ہے، عالمی دہشت گردی کا خطرہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تعلقات کے لیے کسی بھی مستقبل کے روڈ میپ میں انسداد دہشت گردی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔‘
منیر اکرم اس سے قبل دسمبر 2023 میں بھی اس بات کا مطالبہ کر چکے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں جدید ہتھیاروں تک رسائی ایک بڑا خطرہ ہے، جس کی تحقیقات ہونی چاہییں۔
پاکستانی مندوب نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب ملک میں ایک ماہ قبل آٹھ فروری 2024 کو عام انتخابات کا انعقاد ہوا، جس سے قبل ملک میں شدت پسندی کے متعدد واقعات سامنے آئے تھے، خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں انتخابی امیدواروں اور سیاسی جلسوں سمیت سکیورٹی اہلکاروں پر حملےکیے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دسمبر 2023 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کے حملے میں 23 پاکستانی فوجی جان سے گئے جب کہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی سے جڑے ایک گروپ تحریک جہاد پاکستان نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جس کے بعد پاکستانی سیکریٹری خارجہ نے افغان عبوری حکومت کے پاکستان میں ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے ’شدید احتجاج‘ ریکارڈ کروایا تھا۔
وزارت خارجہ کی طرف سے افغان عبوری حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ حملے سے متعلق مکمل تحقیقات اور سخت کارروائی کرے۔
پاکستانی حکومت کے عہدے دار متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی آزادانہ نقل و حرکت ملک کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
اسلام آباد، کابل سے مطالبہ کرتا آ رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو ’دہشت گردی‘ کے لیے استعمال نہ ہونے دے اور افغانستان میں موجود ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبان عبوری حکومت کے عہدیدار کہتے آئے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔