پاکستان کے دفتر خارجہ نے جمعرات کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کی خبروں کی ’سختی‘ سے تردید کی ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے آج ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ ’اس عسکریت پسند تنظیم کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو رہی جو پاکستان میں حالیہ ہونے والے بڑے حملوں کی ذمہ داری ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی خبروں یا قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’بالکل کوئی بات چیت نہیں ہو رہی۔‘
ترجمان دفتر خارجہ نے ایک بار پھر پاکستان کے اس موقف کو دہرایا کہ افغانستان کی عبوری حکومت اپنی سرزمین پر موجود عسکریت پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
رواں ہفتے پاکستان کے ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کے حملے میں 23 پاکستانی فوجی جان سے گئے تھے جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔
پاکستان فوج کے شعبے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق عسکریت پسندوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ’ایک چوکی میں داخل ہونے کی کوشش کی جو ناکام بنا دی گئی جس کے بعد حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے خود کش حملہ کیا، جس سے عمارت زمین بوس ہو گئی اور 23 فوج شہید ہوئے جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق حملے میں شامل تمام چھ ’دہشت گردوں‘ کو مار دیا گیا۔
اس حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی سے بظاہر جڑے ایک گروپ تحریک جہاد پاکستان نے ایک بیان میں قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے عسکریت پسندوں نے پاکستان فوج کو نشانہ بنانے کے لیے یہ حملہ کیا۔
اس مہلک حملے کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے منگل کو افغان عبوری حکومت کے پاکستان میں ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے ’شدید احتجاج‘ ریکارڈ کروایا تھا۔
وزارت خارجہ کی طرف سے افغان عبوری حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ حملے سے متعلق مکمل تحقیقات اور سخت کارروائی کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان حکومت کے عہدے دار کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی آزادانہ نقل و حرکت ملک کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
اسلام آباد، کابل سے مطالبہ کرتا آ رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو ’دہشت گردی‘ کے لیے استعمال نہ ہونے دے اور افغانستان میں موجود ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔
افغانستان میں طالبان عبوری حکومت کے ایک ترجمان نے پاکستان میں منگل کو ہونے والے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسلام آباد کی جانب سے اٹھائے گئے کسی بھی مسئلے کی تحقیقات کریں گے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’اگر وہ (پاکستان) تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر وہ ہمارے ساتھ تفصیلات شیئر کرتے ہیں تو ہم تحقیقات کریں گے۔‘
پاکستان کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کی طرف سے حکومت پر کنٹرول کے دوران افغان فورسز کی پسپائی کے دوران جو اسلحہ چھوڑ دیا گیا وہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے جو کہ ایک اور بڑا چیلنج ہے۔