پاکستان میں عام انتخابات کے بعد نو مارچ کو چاروں صوبوں کی نومنتخب اسمبلیاں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین صدر کے انتخاب میں حصہ لیں گے۔
کل صدارتی انتخاب میں حکمران اتحاد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ محمود اچکزئی کے مابین مقابلہ ہو گا۔
آئین پاکستان کے شیڈول دو کے مطابق پولنگ صبح 10 سے شام چار بجے تک ہو گی اور چیف الیکشن کمشنر صدارتی انتخاب کے ریٹرننگ افسر ہوں گے۔ صوبائی اسمبلیاں، قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکریٹریٹ پولنگ سٹیشنز کے طور پر کام کریں گے۔
شیڈول کے مطابق ووٹرز کو حروف تہجی کے مطابق ووٹ ڈالنے کے لیے بلایا جائے گا۔ صدر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہو گا۔
پریزائیڈنگ افسر سے بیلٹ پیپر ملنے کے بعد ووٹر سکرین کے پیچھے جا کر خصوصی پنسل کے ذریعے اپنی پسند کے امیدوار کے نام کے سامنے کراس کا نشان لگائے گا۔
بیلٹ پیپر مارک کرنے کے بعد ووٹر بیلٹ پیپر بیلٹ بکس میں ڈالے گا۔
قومی اسمبلی کے حکام نے بتایا کہ ’اس دوران یہ دھیان رکھنا ضروری ہے کہ بیلٹ پیپرز پر کوئی نشان یا نام نہ ہو جس سے ووٹر کی شناخت ہو سکے۔
’کراس کا نشان نہ ہونے، دو امیدواروں پر کراس کا نشان ہونے یا غیر واضح ووٹ کا نشان ہونے پر ووٹ غلط قرار دیا جائے گا۔‘
شیڈول کے مطابق ووٹنگ کا وقت مکمل ہونے پر پریزائیڈنگ افسر امیدوار یا ان کے نمائندوں کی موجودگی میں بیلٹ بکس کھولے گا۔
بیلٹ پیپرز کا معائنہ کرنے کے بعد غلط ووٹ مسترد جبکہ درست ووٹ کی گنتی کی جائے گی۔
بعد ازاں امیدواروں کے حاصل شدہ ووٹ علیحدہ بیگز میں رکھ کر سیل کر دیے جائیں گے۔
اس کے بعد پریزائیڈنگ افسر فارم پانچ پر نتائج کا اندارج کرے گا جنہیں ریٹرنگ افسر یعنی چیف الیکشن کمشنر کو ارسال کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے سپیشل سیکریٹری نے ووٹرز کی گنتی سے متعلق کہا کہ ’اراکین قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے ہر ووٹر کا ووٹ ایک ہی گنا یا تصور کیا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کو اراکین کی تعداد کے حساب سے سب سے چھوٹی بلوچستان اسمبلی کے کل ووٹرز سے ضرب دے کر متعقلہ اسمبلی کے کل ووٹرز سے تقسیم کر دیا جائے گا۔ جواب میں آنے والے عداد متعلقہ امیدوار کے ووٹ تصور ہوں گے۔
اور اگر دونوں امیدواروں کو برابر ووٹ ملتے ہیں تو قرعہ اندازی کی جائے گی۔
چیف الیکشن کمشنر حتمی نتائج کا اعلان کریں گے۔ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار صدر پاکستان ہوں گے۔
یاد رہے بیشتر سینیٹ اراکین کی رکنیت 11 مارچ کو ختم ہو رہی ہے۔ اس وجہ سے موجودہ سینیٹرز ہی صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ دیں گے۔
دوسری جانب قومی و صوبائی کے نو منتخب اراکین صدارتی انتخاب میں حصہ لیں گے۔
چونکہ پشاور ہائی کورٹ نے آج سپیکر قومی اسمبلی کو کل تک مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین اور اقلیتی ممبران سے حلف نہ لینے کا کہا ہے لہٰذا ان نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کے اراکین کے آنے سے متعلق فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔