ممنون حسین کراچی کے علاقے جامع کلاتھ مارکیٹ، بندر روڈ پر کپڑے کی تجارت کرتے تھے اور یہیں ان کا گھر بھی ہے۔
سابقہ دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے نامزد صدارتی امیدوار ممنون حسین بھاری اکثریت سے سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں 432 ووٹ لے کر پاکستان کے بارہویں صدر منتخب ہوئے۔ ان پر بطورِ صدر عملی سیاست میں حصہ نہ لینے پر کافی تنقید بھی کی گئی۔
وہ ن لیگ کی عملی سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور نہ ہی ن لیگ کے جلسے جلوسوں میں کبھی خطاب کیا۔ تاہم، انہوں نے جب بھی تقاریر کیں ہمیشہ ایمان داری اور دیانت داری سے سیاست کرنے کا سبق دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے 1993 سے ن لیگ سے ساتھ وابستہ رہنے والے ممنون حسین سے گفتگو میں ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: ایک طرف پورے پانچ سال تک صدرِ پاکستان کا پروٹوکول اور اب ایک عام آدمی کی زندگی، کتنا فرق محسوس کرتے ہیں؟
ممنون حسین: میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں کرتا، اس لیے کہ پہلے میں ایک عام آدمی تھا اور بعد میں صدر منتخب ہوا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب تک اس عہدے پر تھا، اس عہدے کے کچھ اپنے تقاضے اور پروٹوکول تھے۔
اب ایک عام آدمی کی حیثیت سے مجھے کوئی مشکل نہیں ہوتی۔
انڈپینڈنٹ اردو: بطور صدر کیا آپ نے کبھی اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے کسی فیصلے سے اختلاف کیا؟ یا انھوں نے آپ کی کوئی بات ماننے سے انکار کیا یا کوئی ناراضگی؟
ممنون حسین: نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا بلکہ جب ان کو کوئی مشورہ کرنے کی ضرورت ہوتی تو میرے پاس آجاتے تھے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا میں نے کوئی بات کی ہو اور اس پر ان کو اختلاف ہوا ہو۔
انڈپینڈنٹ اردو: کیا آپ اصل زندگی میں بھی اتنے ہی خاموش طبیعت ہیں جتنی خاموشی سے آپ صدر کا عہدہ سنبھالتے تھے؟
ممنون حسین: نہیں، میں خاموش تو نہیں تھا، لیکن لوگوں نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ میں خاموش تھا۔ میں اپنا کام کرتا رہتا تھا، جو میری ذمہ داریاں تھیں ان کو سنبھالتا رہتا تھا۔
میں نے صحت کے معاملات پر کافی کام کیے اور وزیر اعظم نے مجھے ہمیشہ حوصلہ دیا کہ میں اپنی ذمہ داریوں کے علاوہ کچھ کرنا چاہتا ہوں تو کروں۔ انھوں نے اس میں میرا ساتھ دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو: کیا وزیراعظم فیصلے لینے سے پہلے آپ سے مشاورت کرتے تھے یا فیصلے لینے کے بعد آپ کے علم میں لایا جاتا تھا؟
ممنون حسین: انھوں نے کبھی کبھار ضروری مشورہ کیا ورنہ اپنے حکومتی معاملات میں وہ جو فیصلے کرتے تھے، منظوری مجھ ہی سے لی جاتی تھی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انھوں نے کوئی تجویز دی ہو اور میں نے اس سے اختلاف کیا ہو۔
انڈپینڈنٹ اردو: اپنی صدارت کے تجربےکو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ صدرعارف علوی کو کیا مشورہ دیں گے؟
ممنون حسین: میں موجودہ صدر کو یہی مشورہ دے سکتا ہوں کہ بطور صدر آپ کی ذمہ داریاں محدود ہیں تو آپ اپنے طور پر تعلیم اور صحت کے معاملات پر کام کریں، جس طرح میں نے کیا۔ وزیر اعظم سے ان کاموں میں مدد لیں تو ملک کے لیے اچھا ہوگا۔
انڈپینڈنٹ اردو: اپنی صدارت کے بارے میں ایسی کون سی بات ہے جو سب سے زیادہ یاد کرتے ہیں؟ اس وقت کا کوئی خوشگوار واقعہ جو یاد ہو؟
ممنون حسین: میرے خیال میں اپنی صدارت کے بارے میں ایسی کوئی بھی چیز نہیں جسے میں بہت یاد کرتا ہوں۔ خوشگوار واقعات بھی کئی ہیں، مثلاً جن معاملات میں میری دلچسپی ہوتی تھی، میں وزیر اعظم سے کہتا تھا کہ ان معاملات کو مجھے چلانے دیں اور وہ اس سے اختلاف نہیں کرتے تھے۔
مثال کے طور پر جب مجھے معلوم ہوا کہ پرانے شاعروں، ادیبوں اور اداکاروں کی مدد کے لیے ایک فنڈ ہے اور اس فنڈ سے متعلق صرف ایک میٹنگ ہوئی ہے تو میں نے وزیر اعظم سے کہا آپ مجھے اس کی ذمہ داری دے دیں۔
مجھے یاد ہے میرے زمانے میں اس فنڈ کے حوالے سے سال میں دو سے تین میٹنگز ضرور ہوتی تھیں۔ ہم اس فنڈ سے ضروت مند شاعروں، ادیبوں اور اداکاروں کی مدد کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو: کام اور دیگر ذمہ داریوں کےعلاوہ آپ فن کے لیے کیا کرتے ہیں؟ فارغ اوقات میں کیا کرنا پسند کرتے ہیں؟
ممنون حسین: آج کل بس گھریلو ذمہ داریاں سنبھال رہا ہوں۔ فارغ اوقات میں مطالعے اور لوگوں سے مختلف امور پر گفتگو کرنے کا شوق ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: عام طور پر کس قسم کی کتابوں کا مطالعہ کرتے پیں؟
ممنون حسین: میں اردو ادب، سیاست اور فکشن کی کتابوں کا مطالعہ کرنا پسند کرتا ہوں۔
انڈپینڈنٹ اردو: فلمیں دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں؟ سب سے پسندیدہ اداکارہ کون رہی؟ اور کیوں؟
ممنون حسین: فلمیں دیکھنے کا شوق پہلے زیادہ تھا اب اتنا نہیں۔ ایک زمانے میں کئی فلمیں دیکھیں۔ پسندیدہ اداکاراؤں میں پرانے وقتوں کی مدہوبالا اور نرگس سرفہرست تھیں۔ ان کو میں بہت پسند کرتا تھا اور ان کی جو بھی فلم آتی تھی ضرور دیکھتا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو: مختلف سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کی رائے میں نواز شریف کا سیاسی کیریئر ختم ہوچکا ہے۔ کیا اب بھی آپ نواز شریف کو سپورٹ کرتے ہیں؟
ممنون حسین: جی بالکل! میں نواز شریف کو کل بھی اپنا لیڈر سمجھتا تھا اور آج بھی سمجھتا ہوں۔ جس طرح پہلے ان کا ساتھ دیتا تھا اور سپورٹ کرتا تھا آج بھی اسی طرح کرتا ہوں۔ جو لوگ کہتے ہیں نواز شریف کا سیاسی کیریئر ختم ہو گیا وہ غلطی پر ہیں۔ ان کا سیاسی کیریئر کبھی ختم نہیں ہوگا۔
انڈپینڈنٹ اردو: ن لیگ کی تمام لیڈر شپ اس وقت یا تو جیل میں ہے یا پھر مختلف کیسز کا سامنا کر رہی ہے۔ کیا آپ موجودہ احتساب کے عمل سے مطمئن ہیں؟
ممنون حسین: نہیں۔ میں مطمئن نہیں ہوں کیوں کہ احتساب کا عمل جانب دارانہ ہے اور جس طرح آپ نے کہا ن لیگ کی تمام لیڈرشپ اس وقت یا تو جیل میں ہے یا پھر مختلف کیسز کا سامنا کر رہی ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے احتساب کا عمل غیر جانبدارانہ نہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، سیاست دانوں پر ایسے وقت آتے رہتے ہیں۔ جو مضبوط سیاست دان ہیں وہ اپنی جگہ کھڑے رہتے ہیں اور ان کا آج بھی سیاست میں ایک مضبوط مقام ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: آپ نے 2016 میں ایک تقریر میں پاناما لیکس کے معاملے پر کہا تھا ’یہ معاملہ قدرت کی طرف سے اٹھا ہے، اب دیکھیے گا کیسے کیسے لوگ پکڑ میں آئیں گے۔‘کیا اس تقریر کے بعد سے پارٹی میں آپ کے معاملات خراب ہیں؟
ممنون حسین: نہیں! میرے معاملات اس تقریر کے بعد خراب نہیں ہوئے۔ میرے ذہن میں کچھ لوگ تھے جن کے بارے میں، میں سمجھتا تھا کہ وہ کرپٹ ہیں اور وقت آنے پر ان کی پکڑ ہوگی۔
میرا یہ ایمان ہے جو لوگ کرپشن کرتے ہیں ان کی کہیں نہ کہیں پکڑ ضرور ہوتی ہے۔ میں نے ان بے ایمان سیاست دانوں کے بارے میں یہ بات کہی تھی۔ ن لیگ میں تو ہمیشہ بہت صاف ستھرے لوگ رہے ہیں، اس پارٹی میں بس چند ہی کرپٹ لوگ تھے اس کے علاوہ باقیوں کا کردار ہمیشہ بے داغ رہا۔
انڈپینڈنٹ اردو: کیا یہ وہی پرانی ن لیگ ہے جس میں آپ شامل ہوئے تھے؟
ممنون حسین: جی بالکل یہ وہی پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے۔ میں تقریباً 25 سال سے میاں صاحب کے ساتھ ہوں اور آج بھی میں وہیں کھڑا ہوں، جہاں 1993 میں کھڑا تھا۔ آج بھی اسی انداز سے پارٹی کو سپورٹ کرتا ہوں۔
انڈپینڈنٹ اردو: کیا مریم نواز ن لیگ کی پرانی ساخت واپس لانے میں کامیاب ہو پائیں گی؟
ممنون حسین: یہ تو وقت بتائے گا کہ مریم نواز کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔ ابھی ان کی سیاسی زندگی کی ابتدا ہے۔ اتنی جلدی کوئی اس حوالے سے کوئی پیشن گوئی نہیں کرسکتا۔ ان کا پارٹی میں کیا کردار رہتا ہے اور وہ کتنی خوش اسلوبی سے یہ کردار نبھاتی ہیں یہ تو وقت بتائے گا۔ انھوں نے ابھی تک جس مضبوط قوتِ ارادی کا مظاہرہ کیا ہے، اگر یہی رہا تو وہ بہت آگے جائیں گی اور مستقبل کی سیاست میں ان کا ایک اہم مقام ہوگا۔
انڈپینڈنٹ اردو: کیا مریم نواز اب تک کامیاب ہو پائی ہیں؟
ممنون حسین: کسی سیاست دان کی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ اسے لوگ لیڈر مانیں، اس کی قدر کریں اور اسے فالو کریں۔ وہ شخص جو خود اعلان کرے کہ وہ لیڈر ہے، وہ اصل لیڈر نہیں ہوتا۔ آپ دیکھیں مریم نواز کی فالوئنگ کتنی زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے ان میں لیڈر ہونے کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو: نوازشریف، شہباز شریف اور ان کے بچوں کو ایک مشورہ دینا ہو تو کیا دیں گے؟
ممنون حسین: میں یہی نصیحت کروں گا ہمیشہ صاف ستھرے طور پر سیاست کریں، کسی قسم کے غلط کاموں میں خود کو ملوث نہ کریں تو انشااللہ سیاست میں کامیاب ہوں گے۔
یقیناً حق اپنے آپ کو منوا کے رہتا ہے۔ میں ہر سیاست دان کو یہی مشورہ دوں گا اللہ نے آپ کو جو دیا ہے اس پر صبر شکر کریں اور بے ایمانی کی طرف دھیان نہ دیں اور سیاست دانوں کو یہ خیال رکھنا چاہیے پاکستانیعوام کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: آپ نواز شریف کو کیا مشورہ دیں گے؟
ممنون حسین: میں نواز شریف کو کیا نصیحت کرسکتا ہوں، میں تو ان سے نصیحتیں لیتا رہا ہوں۔ نواز شریف کل بھی میرے لیڈر تھے اور آج بھی ہیں۔
میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں اگر وہ مجھ سے کوئی رائے لینا چاہیں تو میں انہیں اپنی رائے دے دوں گا۔ نواز شریف بہت سمجھ دار آدمی ہیں اور اللہ نے ان کو کئی خصوصیات دیں ہیں۔
ایک تو وہ بہت خدا ترس آدمی ہیں، خوف خدا رکھتے ہیں، اپنے ساتھیوں کا خیال رکھتے ہیں اور بہت سمجھ داری کے ساتھ معاملات کو آگے لے کر چلنے والے شخص ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو: آپ شہباز شریف کو کیا نصیحت کریں گے؟
ممنون حسین: آپ دیکھیں شہباز شریف نے تو خود کو منوایا ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے جب میں چین میں تھا، تو ان کے نائب وزیر اعظم نے مجھے بتایا جب چین کی حکومت کوئی کام تیز کرنا چاہتی ہے تو وہ کام شہباز شریف کے ذمے لگا دیتی ہے۔
اس کے بعد میں پانچ مرتبہ چین گیا تو مجھے معلوم ہوا لوگ اب چین میں شہباز شریف کی باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں جس کام کو تیز کرنا ہو وہ شہباز سپیڈ کے ساتھ کرنا چاہیے۔ شہباز شریف کام کرنے کے معاملے میں ایک جِن آدمی ہیں اور میں کہوں گا وہ اسی رفتار سے کام کرتے رہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو: آپ حمزہ شہباز کو کیا مشورہ دیں گے؟
ممنون حسین: حمزہ کے لیے یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنے بزرگوں اور والدین کی عزت کریں اور سیاست میں ایمان داری سے آگے بڑھیں۔ حمزہ اور باقی سب کے لیے یہی نصیحت ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: تو کیا آپ کے نزدیک حمزہ شہباز اب تک ایمان داری سے سیاست نہیں کر رہے تھے؟
ممنون حسین: میں حمزہ کے بارے میں اتنا نہیں جانتا اور ان سے اتنی ملاقات بھی نہیں رہی لیکن میں سمجھتا ہوں انہوں نے بھی اب تک اچھا کام کیا ہے۔ میں یہ نصیحت صرف حمزہ کو نہیں بلکہ سب کو کروں گا کہ ایمان داری سے سیاست کریں۔
انڈپینڈنٹ اردو: مریم نواز پر ن لیگ کی کافی ذمہ داری ہے ان کو کوئی نصیحت کرنا چاہیں تو وہ کیا ہوگی؟
ممنون حسین: مریم نواز کی سیاسی زندگی ابھی شروع ہوئی ہے۔ ابھی تک تو وہ کامیاب ہیں لیکن دیکھنا پڑے گا آگے کس طرح کی کامیابی ان کے حصے میں آتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: کیا حسن اور حسین نواز کو پاکستان واپس آکر اپنا مقدمہ لڑنا چاہیے؟
ممنون حسین: حسن اور حسین سیاست میں نہیں ہیں، صرف کاروبار سنبھالتے ہیں لہذا ضروری نہیں کہ وہ پاکستان آئیں۔
مجھے یاد ہے جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو اس زمانے میں میں جدہ گیا تھا، تب میری حسین نواز سے ملاقات ہوئی تھی۔ انھوں نے مجھے کہا تھا میں اب پاکستان میں کاروبار نہیں کروں گا، میں نے بہت نصیحت حاصل کرلی۔ پاکستان ان کا وطن ہے وہ جب چاہیں پاکستان آسکتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو: کیا آپ وزیر اعظم عمران خان کی پرفارمنس سے مطمئن ہیں؟
ممنون حسین: بالکل نہیں! ابھی تک وہ بہت غیر اطمینان بخش طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان کی اقتصادی حالت بھی بہت خراب ہوگئی ہے۔ مجھے خوف آتا ہے پاکستان میں اب جتنی خرابیاں آ گئی ہیں وہ کیسے ٹھیک ہوں گی۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے پاکستان کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ پہلے جو حکومتیں آئیں ان کی وجہ سے سسٹم میں کوئی خرابیاں نہیں آئیں؟
ممنون حسین: اس سے پہلے ن لیگ کی حکومت تھی اور وہ بہت اچھی حکومت تھی۔ آپ دیکھیں ن لیگ کے دور میں ترقی کی شرح 5.8 فیصد تھی اور اب ترقی کی شرح صرف دو فیصد ہے تو اس سے اندازہ لگائیے ن لیگ کی حکومت کتنا اچھا کام کر رہی تھی اور اگر یہی حکومت قائم رہتی تو ملک کتنی ترقی کرتا۔ جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے ہم زوال پذیر ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو: آپ ہمیشہ کرپشن کے خلاف بات کرتے ہیں، آپ کہتے ہیں ایمان داری سے سیاست کرنی چاہیے، لیکن آپ کی پارٹی کی لیڈر شپ اس وقت جیل میں ہے اور کیسز کا سامنا کر رہی ہے۔ کیا آپ کی پارٹی آپ کی امیدوں پر پوری اتر پائی ہے؟
ممنون حسین: میں سمجھتا ہوں زیادہ تر کیسز میں الزامات غیر ضروری ہیں۔ مثلاً رانا ثنااللہ پر الزام لگا دیا گیا کہ وہ منشیات کا کاروبار کرتے ہیں۔ اب آپ بتائیں، کوئی سوچ سکتا ہے کہ رانا ثنا اللہ منشیات کا کام کرے گا؟ اور الزام ثابت کرنے کے لیے ان کی گاڑی سے منشیات بھی برآمد کرلیں۔
ناصرف یہ بلکہ شاہد خاقان عباسی پر بھی غلط الزامات لگا دیے گئے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں عباسی سے زیادہ پاکستان میں ایل این جی کے کاروبار کو کسی نے فروغ نہیں دیا۔ مسلم لیگ کے لوگوں پر غلط الزام لگائے گئے ہیں اور ان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ پھر بھی مسلم لیگ کے لوگ فرشتے نہیں، جس نے غلط کام کیا ہے اسے مسائل کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔