کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور شدت پسند تنظیم جماعت الاحرار کچھ عرصہ ناراضگی کے بعد دوبارہ متحد ہو گئی ہیں، جب کہ اولذکر کے کچھ اہم عہدوں پر دوسری تنظیم سے کچھ لوگ بھی تعینات کیے گئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے میڈیا کو جاری کیے گئے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے رہبری شوریٰ کے رکن عمر خراسانی اور ان کے ساتھیوں کی ٹی ٹی پی کے مابین ناراضگی پیدا ہوئی تھی، جس کی وجہ سے فاصلوں نے جنم لیا۔
اعلامیے کے مطابق ٹی ٹی پی کی قیادت اور شوریٰ کی کوششوں سے ناراضگی مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔
عبدالسید سویڈن میں مقیم پاکستان اور افغانستان کی شدت پسند تنظیموں پر تحقیق کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹی ٹی پی اور احرار کے مابین مصالحت ایک اہم پیش رفت ہے۔
عبدالسید نے بتایا کہ احرار دھڑے نے 2020 میں ٹی ٹی پی شمولیت اختیار کی تھی لیکن 2022 میں خالد خراسانی کی موت کے بعد ان کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔
عبدالسید نے کہا کہ’اگر احرار اور ٹی ٹی پی کی یہ مصالحت کامیاب رہی تو یقینی طور پر پاکستان کی سکیورٹی صورتحال پر منفی اثر ڈالے گی اور اس سے سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں تیزی آسکتی ہے؟‘
ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کے مابین اختلافات شدت اخیتار کر گئے تھے اور اس کی پہلی بنیادی وجہ جماعت الاحرار کے بانی سربراہ خالد خراسانی کی افغانستان میں ہلاکت تھی۔
خالد خراسانی کو گذشتہ سال افغانستان میں نامعلوم افراد نے بم دھماکے میں قتل کیا تھا، جس کے بعد جماعت الاحرار ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہی تھی۔ تاہم حالیہ دنوں میں یہ اختلافات تب مزید شدت اختیار کر گئے جب احرار کے کچھ افراد کو پہلے عہدوں پر تعینات اور بعد میں ہٹایا گیا، جس کے رد عمل میں جماعت الاحرار نے ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر مفتی نور علی محسود پر سنگین الزامات بھی لگائے تھے۔
الزامات میں مفتی نور ولی پر خالد خراسانی کو پاکستان کے ریاستی اداروں کے ایما پر قتل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
جماعت الحرار کی بنیاد 2013 میں تب رکھی گئی تھی، جب اس وقت ٹی ٹی پی کے سربراہی پر اختلافات پیدا ہوئے اور خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند سے تعلق رکھبے والے عمر خالد خراسانی نے جماعت کی بنیاد رکھی۔
ٹی ٹی پی کا یہ دھڑا شدت پسندی کے دوران سب سے مضبوط دھڑا سمجھا جاتا تھا اور بعد میں گروہ نے دوبارہ ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔
صلح کے بعد ٹی ٹی پی کے جانب سے جاری بیان میں احرار کے بعض افراد کو عہدے بھی دیے گئے ہیں جس میں احرار کے موجودہ سربراہ عمر مکرم خراسانی، سربکف مہمند وغیرہ شامل ہیں۔
تنظیم سازی میں ٹی ٹی پی نے نائب امیر بھی تبدیل کر دیا اور ملاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے مفتی بورجان یوسفزئی کو نائب امیر مقرر کیا گیا۔
نئی تنظیم سازی میں جماعت الاحرار کے کچھ افراد کو بھی اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا، جن میں احرار کے موجودہ سربراہ عمر مکرم خراسانی کو نام نہاد جنوبی زون کے کمیشن کے سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
اسی طرح اسد آفریدی، جن کو کچھ عرصہ پہلے احرار کی جانب سے کارروائیوں کی ذمہ داریاں قبول کرنے پر ٹی ٹی پی نے عہدے سے ہٹایا تھا، کو دوبارہ کوہاٹ ڈویژن کے نام نہاد گورنر مقرر کیا ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے احرار کے ایک اور اہم رہنما سربکف مہمند کو سیاسی کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جبکہ احرار کے سینیئر رہنما قاری کامران کو ٹی ٹی پی کے نام نہاد انٹیلیجنس ڈائریکٹریٹ کے سربراہ لگایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ٹی پی کے نئے نائب امیر مفتی برجان کون ہیں؟
ٹی ٹی پی کے مرکزی شوریٰ نے مفتی بورجان یوسفزئی کو نائب امیر مقرر کیا ہے۔ اس حوالے سے عبدالسید نے بتایا کہ مفتی بورجان ٹی ٹی پی کے اہم اور سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مفتی بورجان 2022 اور 2023 میں ٹی ٹی پی کے جنوبی زون کے ملٹری کمیشن کے سربراہ رہے۔
یہ کمیشن ٹی ٹی پی کی ’وزارت دفاع‘ کے تحت کام کرتا ہے اور ملک میں ٹی ٹی پی کے تمام آپریشنل نیٹ ورک کو شمالی و جنوبی زونز کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے۔ ٹی ٹی پی کا نائب امیر ہی ’وزیر دفاع‘ ہوتا ہے جو اب مفتی بورجان ہوں گے۔
مفتی بورجان کو 2024 میں نام نہاد سیاسی کمیشن کا نائب سربراہ مقرر کیا گیا تھا جو ایک اہم عہدہ ہے جس کا دیگر امور کے ساتھ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے معاملات کو بھی دیکھنا ہوتا ہے لیکن اب نائب امیر بننے کے بعد وہ سیاسی کمیشن کے عہدے پر نہیں رہے گے۔
مفتی بورجان 2022 میں شروع ہونے والے پاکستانی حکومت کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا بھی حصہ تھے اور ان کی کچھ تصاویر بھی پاکستانی علما کے ذریعے سامنے ؤئی تھیں۔
اس سے قبل عبدالسید کے مطابق مفتی بورجان ٹی ٹی پی کے ملاکنڈ ڈویژن کے 2021 میں سربراہ تھے۔