’اذان اور مؤذن‘ رمضان المبارک کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کی نئی سیریز ہے جس میں پاکستان بھر سے چنیدہ مساجد کے مؤذن اور ان کے اذان دینے اور سیکھنے کے سفر کو قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ اس سلسلے کی پہلی قسط ہے۔
33 سالہ نورالاسلام 2018 سے دارالحکومت اسلام آباد کی فیصل مسجد میں مؤذن کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں جو کہ ایک طرح سے ان کا بچپن کا خواب تھا۔
نور اذان کے وقت سے کافی پہلے مسجد کے مرکزی حال میں آ جاتے ہیں۔ اذان کا وقت ہونے سے پہلے وہ قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ کی حمد و تسبیح میں وقت گزارتے ہیں۔
اذان کا وقت ہوتے ہی وہ مسجد کے مخصوص حصّے میں نصب مائیک کی طرف بڑھتے ہیں اور اس کے سٹینڈ کو اپنے قد کاٹھ کے حساب سے ایڈجسٹ کرنے لگتے ہیں۔
اس اثنا میں آن ہونے کی وجہ سے مائیک سے ’کھڑ کھڑ‘ کی آواز آتی ہے۔
نور کے اذان دینے سے پہلے ہمیشہ آنے والی یہ ’کھڑ کھڑ‘ کی آواز اس بات کا اعلان ہے کہ چند ہی لمحوں میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں چار مناروں والی فیصل مسجد سے نورالاسلام کی آواز میں اذان بلند ہونے والی ہے۔
نورالاسلام دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال دیتے ہیں تا کہ اذان دینے کے دوران انہیں صرف اپنی آواز ہی سنائی دے۔
نور کے لیے یہ صرف ڈیوٹی نہیں بلکہ ان کا بچپن کا خواب ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ آج سے کئی سال پہلے جب نور لڑکپن میں پہلی مرتبہ صوابی سے اسلام آباد آئے تھے تو چار مناروں والی فیصل مسجد کی اذان نے انہیں بہت متاثر کیا تھا۔
نور نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’شروع سے ہی میرا شوق تھا کہ میں عالم بنوں گا۔ جب سے میں چھ سال کا تھا اور سکول جاتا تھا تو سکول میں کچھ لوگ کہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر بنیں گے، انجینیئر بنیں گے، پائلٹ بنیں گے۔ اس وقت سے ہی میری خواہش تھی کہ میں عالم بنوں گا‘۔
نور نے اے ایف پی کو مزید بتایا کہ ’میرے دل میں یہ خیال تھا کہ میں نہ صرف عالم بنوں گا بلکہ عالم بننے کے بعد اتنی محنت کروں گا کہ اللہ کے فضل سےخود کو نمایاں کر سکوں۔ الحمد اللہ ابھی یہ ہو رہا ہے‘۔
نور کو اس کا موقع 2018 میں ملا جب فیصل مسجد میں مؤذن کی ایک ہی اسامی کا اعلان ہوا۔ اس وقت تقریباً 400 امیدواروں میں سے فیصل مسجد کے مؤذن کے لیے نور منتخب ہوئے۔
مؤذن عام طور پر اپنی آواز کی حفاظت کرتے ہیں مگر نور کا اس حوالے سے مختلف انداز ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ گلے کی بہت حفاظت کرتے ہیں۔ مطلب ٹھنڈا نہیں پیتے۔ چکناہٹ والی چیز نہیں کھاتے۔ ٹھنڈی ہوا سے بھی بچتے ہیں۔ اچھی بات ہے لیکن اس حوالے سے میں تھوڑا بے احتیاط ہوں‘۔
نور صوابی کے آبائی گاؤں میں ایک مقامی ہیرو ہیں۔ اب ان کی چاہت ہے کہ وہ مسجدالحرام مکّہ میں مؤذن بنیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔