نیپال میں کوہ پیمائی کا سیزن شروع ہونے جا رہا ہے اور حکومت نے کوہ پیماؤں کے لیے نئے قواعد کا اعلان کر دیا ہے جن میں لازمی طور پر جی پی ایس ٹریکر ساتھ لے جانے کا حکم بھی شامل ہے۔
نئے قواعد ایک سال میں 18 لوگوں کی موت کے بعد متعارف کروائے گئے ہیں۔
نیپال نے رواں سال کوہ پیماؤں سے کہا ہے کہ وہ اپنی حفاظت یقینی بنانے کے لیے اپنے ساتھ جی پی ایس ٹریکر ساتھ لے کر جائیں۔ مارچ سے مئی تک موسم بہار میں کوہ پیمائی کے موسم کے دوران نیپال کوہ پیماؤں کے لیے چھوٹے اور ٹریکرز کا استعمال لازمی قرار دینے کا ارادہ رکھتا ہے جنہیں چلانے اور بند کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
گذشتہ سال ماؤنٹ ایورسٹ پر سب سے زیادہ لوگوں کی جان گئی۔ 18 اموات ہوئیں۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑ پر کم از کم پانچ لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔
حکام کے مطابق ٹریکرز کو جیکٹ میں سیا جا سکتا ہے اور انہیں بیٹری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاتھ میں پکڑے ڈیٹیکٹر کی مدد سے ٹریک کرنے پر برف میں 20 یارڈ اور اس سے زیادہ فاصلے تک ٹریکرز کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
نیپال کے محکمہ سیاحت میں کوہ پیمائی کے ڈائریکٹر راکیش گرونگ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس سال کوہ پیماؤں کے لیے ٹریکرز لازمی قرار دیے گئے ہیں تاکہ اگر کوئی حادثہ پیش آئے تو ان کی موجودگی کے مقام کی درست نشاندہی ہو سکے۔‘
گذشتہ ماہ حکام نے اعلان کیا تھا کہ ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے والے کوہ پیما اب چوٹی کو سر کرنے کے بعد اپنا فضلہ بیگز میں ڈال کر بیس کیمپ واپس لانے کے پابند ہوں گے۔ نیپال میں حکام بالآخر کوہ پیماؤں کی طرف سے چھوڑی گئی گندگی کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے تھے۔
نئے ضوابط کے تحت پہاڑ کے اوپر راستوں پر انسانی فضلے کے حجم کے بارے میں بڑھتی ہوئی شکایات پر متعارف کروائے گئے ہیں۔ شدید سردی کی وجہ سے یہ فضلہ قدرتی طور پر تلف نہیں ہوتا۔
نیپال میں دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے آٹھ واقع ہیں۔ نیپال کی وزارت سیاحت کے مطابق گذشتہ سال 14 مئی تک حکومت نے پہاڑی سیاحت سے 58 لاکھ ڈالر اور صرف ایورسٹ سے 50 لاکھ ڈالر کمائے۔
پیشہ ور کوہ پیماؤں اور کوہ پیمائی مہمات کا انتظام کرنے والے بعض کمپنیوں نے پہاڑی پر چڑھنے کے عمل کی نگرانی کرنے اور سپانسرز کو ڈیٹا فراہم کرنے کے لیے طویل عرصے تک جدید ٹریکرز استعمال کرتے رہے ہیں۔ تاہم لازمی قرار دیے گئے نئے جی پی ایس ٹریکر استعمال میں زیادہ آسان اور محدود خصوصیات والے ہوں گے۔ ان کا حجم یو ایس بی سٹک سے بڑا نہیں۔ یہ بیڑی کے بغیر کام کریں گے اور انہیں آسانی سے جیکٹ میں رکھا جا سکے گا۔
ان ٹریکرز کی قیمت آٹھ سے 12 پاؤنڈ کے درمیان ہے اور انہیں مہم جوئی کا انتظام کرنے والی کمپنی فراہم کرے گی۔ پہاڑی چوٹی سے اترنے کے بعد انہیں کوہ پیماؤں سے واپس لے کر دوبارہ استعمال کیا جائے گا۔
گذشتہ سال ساگرماتھا نیشنل پارک جس میں ایورسٹ واقع ہے، میں 60 ہزار سیاح آئے جن میں سے چھ نے سر پہاڑی چوٹی سر کرنے کی کوشش کی۔ ماؤنٹ ایورسٹ کئی ٹن کچرے سے بھرا ہوا ہے جس میں خالی ڈبے، بوتلیں، گیس کنستر، کوہ پیمائی میں استعمال ہونے والے آلات جنہیں وہیں چھوڑ دیا گیا، پلاسٹک اور انسانی فضلہ بھی شامل ہے۔ اس کچرے کی وجہ سے پہاڑ کو ’دنیا کا سب سے بلند کوڑے دان‘ قرار دیا گیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ساگرماتھا آلودگی کنٹرول کمیٹی امریکہ سے فضلہ ڈالنے کے لیے تقریباً آٹھ ہزار بیگ خرید رہی ہے جنہیں کوہ پیماؤں، شرپاوں اور معاون عملے میں تقسیم کیا جائے گا۔ ہر شخص کو دو بیگ دیے جائیں گے۔ ان بیگوں کو متعدد بار استمعال کیا جا سکتا ہے۔
ان بیگوں میں ایسے کیمیکلز رکھے گئے ہیں جو انسانی فضلے کو ٹھوس مواد میں تبدیل کر دیتے ہیں اور اس کی بدبو نمایاں طور پر کم ہو جاتی ہے۔
برطانوی ایکسپیڈیشن کمپنی جو ایورسٹ بیس کیمپ تک سفر کا انتظام کرتی ہے، کے ڈائریکٹر جوناتھن ریلی نے اخبار ٹیلی گراف کو بتایا کہ ’ماؤنٹ ایورسٹ پر کوڑا ڈالنا مضحکہ خیز عمل ہے۔‘
’میرا سوال یہ ہے کہ کیا کوہ پیما فضلے کے بیگز کو پہاڑ سے نیچے لائیں گے یا وہ انہیں وہیں پھینک دیں گے، بالکل اسی طرح جیسے کتوں کو چہل قدمی کروانے والے کتوں کا فضلے کے پلاسٹک بیگز پھینک دیتے ہیں؟ یہ موجودہ صورت حال سے بھی بدتر ہوگا کیوں کہ بیگ کچرے کے قدرتی طور پر اتلاف کو ناممکن بنا دیں گے۔
’مجھے شک ہے کہ کچھ کوہ پیما ایسے ہوں گے جو بیگ استعمال کرنے کے بعد انہیں پہاڑ سے نیچے لانے کی بجائے انہیں پھینک دیں گے۔‘
اسی طرح کے اقدامات کو پہلے ہی الاسکا میں ماؤنٹ ڈینالی جیسے دیگر پہاڑوں پر کامیابی سے عملی جامہ پہنایا جا چکا ہے اور مبینہ طور پر ایورسٹ سر کرنے کی مہمات کا انتظام کرنے والی کمپنیوں نے ان کا خیر مقدم کیا ہے۔
ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی کی صنعت کی تیز رفتار ترقی نے سخت مسابقت اور حفاظت کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ موسمی حالات کم ہی سازگار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے خطرناک رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور کوہ پیماؤں کو بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں انہیں سخت موسمی حالات میں انتظار کرنا اور کم ہوتی آکسیجن کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ آپریٹرز کی طرف سے ناتجربہ کار کوہ پیماؤں کوآٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند خطرناک ’موت کی وادی‘ میں لے جانے پر بھی تشویش پائی جاتی جس سے پہاڑ پر موجود تمام افراد کے لیے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلندی پر ریسکیو کے تقریباً ناممکن ہونے کی وجہ سے ٹریکرز متعارف کروائے گئے ہیں جس سے زخمی کوہ پیماؤں کی بازیابی کو محفوظ اور زیادہ مؤثر بنائے جانے کی امید ہے۔
گذشتہ سال اکتوبر میں نیپال کی بلند چوٹیوں کا دورہ کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے روائتی ایندھن کا استعمال کو فوری طور پر ختم کرنے زور دیا۔ انہوں نے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہمالیائی گلیشیئر پگھلنے کی خطرناک شرح پر روشنی ڈالی۔
ماؤنٹ ایورسٹ اور ماؤنٹ اناپورنا کے بیس کیمپوں کا دورہ کرنے والے انتونیو گوتیریش نے روائتی ایندھن کے استعمال کے ان تباہ کن اثرات کو اجاگر کیا جن میں گلیشیئر کا ریکارڈ رفتار کے ساتھ پگھلنا، قدرتی آفات جیسے چٹانوں، پہاڑی برفانی تودوں کا گرنا اور دریاؤں اور سمندروں میں کی سطح اضافے کی وجہ سے ثقافتوں کو لاحق خطرات شامل ہیں۔
انتونیو گوتیریش کے بقول: ’میں آج یہاں دنیا کی چھت سے آواز بلند کرنے آیا ہوں کہ پاگل پن بند کیا جائے۔‘ گلیشیئر پیچھے ہٹ رہے ہیں لیکن ہم نہیں ہٹ سکتے۔ ہمیں روائتی ایندھن کا دور ختم کرنا ہوگا۔‘
اس سے قبل 2023 میں نیپال میں قائم انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈولپمنٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر آنے والی دہائیوں یا صدیوں میں زمین چار درجے سیلسیئس تک گرم ہوئی تو ہمالیائی گلیشیئرز اپنے 80 فیصد حصے کو کھو سکتے ہیں۔
گوتیریش نے کہا کہ ’اب ہمیں اگلے محاذ پر موجود لوگوں کی حفاظت کے لیے کام کرنا ہو گا اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 درجے سیلسیئس تک محدود کرنا ہو گا۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent