انڈیا میں انتخابات کروانے والے ادارے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ہفتے کو اعلان کیا ہے کہ نئی پارلیمان کے انتخاب کے لیے ملک میں مرحلہ وار ووٹنگ کا آغاز 19 اپریل سے ہو گا۔
انڈین وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے ہونے والے عام انتخابات میں تقریباً ایک ارب افراد حصہ لیں گے۔ یہ عالمی سطح پر سب سے بڑا انتخابی عمل ہو گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری مدت کے لیے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں حزب اختلاف کی ہاتھ پیر مارنے میں مصروف جماعتوں کے اتحاد سے کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔
لوک سبھا یا پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی 543 نشستوں کے لیے انتخابات 19 اپریل سے شروع ہونے والے تقریباً سات ہفتے میں مکمل ہوں گے۔
یکم جون تک 28 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام چھ علاقوں میں سات مرحلوں میں انتخابات ہوں گے۔ ووٹوں کی گنتی چار جون کو شروع ہوگی اور توقع ہے کہ یہ دو دن میں مکمل ہوجائے گی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ عام انتخابات کے لیے 2400 سے زیادہ سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار کھڑے کریں گی جن کے بارے میں رائے عامہ کے ابتدائی جائزوں میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ نریندر مودی کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ان پر غالب رہے گی۔
بھارتی ریاستوں سکم، اڑیسہ، اروناچل پردیش اور آندھرا پردیش میں رائے دہندگان بیک وقت ریاستی اسمبلیوں کے ارکان کے انتخاب کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
18 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً 97 کروڑ رجسٹرڈ انڈین ووٹر ملک بھر میں 10 لاکھ سے زیادہ پولنگ سٹیشنوں پر ارکان پارلیمنٹ کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔
انڈیا کے الیکشن کمیشن نے ہفتے کے روز اعلان کیا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر ہونے والے انتخابات کے لیے تقریباً ڈیڑھ کروڑ سرکاری ملازمین کی خدمات حاصل کرے گا۔ ان ملازمین میں زیادہ تر اساتذہ اور جونیئر کارکن شامل ہیں۔
انتخابات کا ہر مرحلہ ایک ہی دن پر محیط ہوگا جس میں مختلف ریاستوں، مصروف شہری مراکز اور دور دراز دیہات کے متعدد حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔
مرحلہ وار ہونے والی اس پولنگ کے دوران حکومت تشدد کی روک تھام اور انتخابی عملے اور ووٹنگ مشینوں کی نقل و حمل کے لیے ہزاروں فوجی تعینات کرے گی۔
چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے نفرت انگیز تقاریر اور ’ذات پات یا مذہب کی بنیاد پر تقاریر کرنے، کسی کی ذاتی زندگی پر تنقید کرنے‘ کے خلاف خبردار کیا ہے۔
کمیشن نے کہا کہ ادارے نے انتخابی مہم کی نگرانی اور قواعدوضوابط کی خلاف ورزی پر ’سخت کارروائی‘ کرنے کے لیے 2100 مشیروں کی خدمات حاصل کی ہیں۔
انڈیا کے وزیر اعظم نریندرمودی نے الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی ہفتے کو اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’جمہوریت کے سب سے بڑے میلے کا آغاز ہو گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’مجھے پورا یقین ہے کہ ہمیں مسلسل تیسری بار خاندان کے ایک ارب 40 کروڑ لوگوں اور 96 کروڑ سے زیادہ ووٹروں کی بھرپور محبت اور دعائیں ملیں گی۔‘
نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) انتخابی مہم کی تاریخوں کے اعلان سے پہلے ہی کئی ماہ سے انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم تقریباً ہر روز ملک بھر میں فضائی سفر کر رہے ہیں، نئے منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں، اعلانات کر رہے ہیں، مذہبی تقریبات میں حصہ لے رہے ہیں اور سرکاری نجی تقریبات میں خطاب کر رہے ہیں۔
مودی اپنی تقاریر میں اپنے دو ادوار کے دوران اقتصادی ترقی کو اجاگر کرتے آ رہے ہیں جس کے نتیجے میں انڈیا اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ تیزی سے پھلتی پھولتی بڑی معیشت بن چکا ہے۔ ہندو اکثریت والے معاشرے کے لیے ان کی پارٹی کا ایجنڈا بھی اہم موضوع ہے جس میں مہندم کر دی جانے والی (بابری) مسجد کی جگہ پر عظیم الشان رام مندر کا افتتاح بھی شامل ہے۔
مودی نے بی جے پی کے لیے 370 اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے لئے چار سے زیادہ نشستوں کا ہدف مقرر کر رکھا ہے ۔
ان کی بڑی مخالف، سب سے بڑی اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس پارٹی، جس نے 1947 میں آزادی کے بعد سے زیادہ تر وقت انڈیا میں حکومت کی، نے بی جے پی کے مل کر مقابلے کے لیے انڈیا (انڈین نیشنل ڈولپمنٹ انکلوسیو الائنس) کے نام سے 28 پارٹیوں پر مشتمل اتحاد تشکیل دیا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent