پاکستان کے حالیہ انتخابات کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے شفافیت پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ خاص طور پر مسلم لیگ ن کے اہم رہنماؤں جن میں سابق وفاقی وزرا بھی شامل ہیں، کی شکست نے سب کو حیران کیا ہے۔
اگرچہ ان کی جانب سے کوئی واضح مزاحمت تو نہیں کی گئی البتہ دبے لفظوں میں سوال ضرور اٹھا رہے ہیں۔ پارٹی کے اہم رہنما ہونے کی وجہ سے انہیں مشاورتی عمل میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
رانا ثنا اللہ ن لیگ پنجاب کے صدر، سابق وزیرخواجہ سعد رفیق، خرم دستگیر،عابد شیر علی اورشیخ روحیل اصغر، میاں جاوید لطیف الیکشن میں شکست کھا گئے جبکہ طلال چوہدری ٹکٹ نہ ملنے پر ایوانوں سے باہر ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ ن کی وفاق میں حکومت چاہے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر بنی ہے۔ لیکن ان رہنماؤں کے تجربہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے بعض کو ضمنی انتخاب میں دوبارہ الیکشن لڑایا جائے گا اور سینیٹ کے آئندہ انتخاب میں سینیٹر بنا کر بھی کابینہ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
شیخ روحیل اصغر کے مطابق ’الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے اگرچہ ہمیں تحفظات ہیں لیکن پھر بھی جمہوریت کی بقا کے لیے نتائج تسلیم کیے ہیں اور چاہتے ہیں دوبارہ بھی انتخاب جیت کر ہی ایوان میں جائیں۔‘
ماضی میں بھی ن لیگ اپنے شکست کا سامنا کرنے والے اہم رہنماؤں کو دوبارہ انتخابات یا سینیٹر بنوا کر ایوانوں میں لاتی رہی ہے۔ جس طرح 2018 کے انتخاب میں شکست ہونے پر شاہد خاقان عباسی کو لاہور سے ایم این اے بنوایا گیا، البتہ جو پارٹی پالیسی سے انحراف کر کے علیحدہ ہوں انہیں دوبارہ ساتھ رکھنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ جس کی مثال سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، چوہدری نثار علی خان ہیں۔
شکست کھانے والے رہنماؤں کی خواہش اور سیاسی کردار:
حالیہ عام انتخابات میں این اے 121 لاہور سے شکست کھانے والے شیخ روحیل اصغر پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدوار وسیم قادر سے آٹھ ہزار ووٹوں کی لیڈ سے شکست کھا چکے ہیں۔ لیکن جیتے والے وسیم قادر نے نتائج کے کچھ دن بعد ہی ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
شیخ روحیل اصغر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انتخابات شفاف تھے یا نہیں اس کا جواب الیکشن کمیشن سے لینا چاہیے۔ البتہ پارٹی پالیسی کے مطابق نتائج تسلیم کر لیے اسی حلقے سے کئی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکا ہوں۔ آئندہ بھی یہی خواہش ہے کہ الیکشن جیت کر ہی ایوان تک پہنچوں گا۔ اسی طرح ہمارے دیگر ساتھی خاص طور پر خواجہ سعد رفیق، خرم دستگیر، رانا ثنااللہ اور میاں جاوید لطیف بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہماری پارٹی وفاق اور پنجاب میں حکومت بنا چکی ہے جس کی سرپرستی نواز شریف خود کر رہے ہیں۔ ہم بھی مشاورت میں شامل ہیں لیکن حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کر رہے۔ پارٹی جس کو چاہے گی دوبارہ ضمنی الیکشن لڑائے گی اور جسے چاہے کی سینیٹ کا ٹکٹ دے گی۔ ہم پارٹی پالیسی اور نواز شریف کی ہدایت کے پابند ضرور ہیں۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ حکومت کتنی مضبوط دکھائی دیتی ہے اور کیا مدت پوری کرتی دکھائی دے رہی ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ ’لوگوں کو کسی کی جیت یا ہار سے فرق نہیں پڑتا البتہ حکومت وہی کامیاب ہوتی ہے جو لوگوں کے مسائل حل کرے۔ اگر ہماری حکومت نے چلنا ہے تو اسے بھی ڈلیور کرنا پڑے گا ورنہ مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ امید ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں حکومت بہتر کارکردگی دکھائے گی۔‘
ن لیگ کے ہارنے والے ان اہم رہنماؤں کو ابھی تک بطور مشیر وفاقی یا صوبائی کابینہ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
تجزیہ کار سلیم بخاری کے مطابق ’ہر الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما شکست کھا جاتے ہیں لیکن اس بار صورتحال مختلف اس لیے ہے کہ حکومت بنانے والی اور اپوزیشن جماعتیں دونوں دھاندلی کا شور مچا رہی ہیں۔ ن لیگ کے اہم رہنما سیاسی میدان میں شکست کھانے کے باوجود پارٹی وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔‘
’حکومت چاہے بن گئی لیکن ہارنے والے تین سابق وفاقی وزرا اور تین اہم رہنما ہیں جن کی ن لیگ میں خاص اہمیت سمجھی جاتی ہے۔ یہ نواز شریف کے پرانے اور قابل اعتبار ساتھی بھی ہیں اس لیے انہیں اقتدار سے باہر رکھنا مشکل لگتا ہے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی پہلے مرحلے میں وفاقی و صوبائی کابینہ بنائی گئی ہے، امید ہے ان میں سے بعض کو بطور مشیر اور کچھ ضمنی یا سینیٹ کا الیکشن لڑ کر اقتدار میں پہنچ جائیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ’نواز شریف کی مرضی سے چاہے وزیر اعظم ان کے بھائی اور وزیر اعلیٰ پنجاب ان کی بیٹی بنی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ خود کسی سرکاری عہدے پر نہیں ہیں۔ اس لیے وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ان کے پرانے ساتھی جو شکست کھا گئے انہیں حکومت کا حصہ ضرور ہونا چاہیے۔‘
اہم رہنماؤں کے بغیر سیاسی وحکومتی استحکام ممکن ہے؟
سلیم بخاری کے بقول، ’یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن نہ صرف یہ کہ اکیلے وفاق میں حکومت نہیں بنا سکی بلکہ اپنے اہم رہنماؤں کی شکست سے زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتی۔ وفاقی کابینہ میں پارٹی رہنما موجود تو ہیں لیکن اہم وزارتوں پر پارٹی سے باہر کے لوگوں کو بھی شامل کرنا پڑا ہے۔ وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کے سہارے کھڑی ہے وہ جب چاہیں حکومت گرا سکتے ہیں اسی لیے بلیک میلنگ کا خوف موجود ہے۔‘
’ابھی حکومت بنے چند دن ہوئے ہیں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے وزیر اعظم کا نامزد کردہ چیئرمین ارسا تبدیل کرانے کے لیے دباؤ ڈالا اور اپنی بات منوا لی۔ اسی طرح آئندہ بھی وزیر اعظم کو پیپلز پارٹی کی ہر بار ماننا پڑے گی۔‘
سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’مسلم لیگ ن کے پاس وفاق اور پنجاب میں حکومت ہونے کے باوجود تجربہ کار اراکین موجود نہیں ہیں۔ جس کا قیادت کو پوری طرح احساس ہے۔ پھر پیپلز پارٹی بھی وفاق میں مشکل فیصلوں کے بعد کابینہ میں شامل ہو گی۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر ٹیکسوں میں اضافے اداروں کی نجکاری جیسے مشکل فیصلوں کے بعد وہ کابینہ میں آئیں گے جب کہ مہنگائی کا سارا ملبہ ن لیگ پر پڑے گا جیسے پہلے پڑا ہے۔ لہذا ن لیگ ان حالات میں پوری کوشش کر رہی ہے اپنے تجربہ کار رہنماؤں کو ایوان تک پہنچایا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت ملنے کے باوجود بھی مسلم لیگ کی مشکلات برقرار ہیں۔ کیونکہ کئی رہنما عام انتخابات کی طرح ضمنی الیکشن میں بھی شکست سے خوفزدہ ہیں۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ یا تو انہیں مشیر بنایا جائے یا سینیٹ کا ٹکٹ مل جائے۔ موجودہ حالات میں بھی ن لیگ کے ہارے ہوئے اہم امیدواروں کا ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونا پہلے سے زیادہ مشکل ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف کے نام کا ووٹ ملتا ہے مگر وہ خود وزیر اعظم نہیں بنے جس کا ان کے حامیوں کو رنج بھی ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔