چھٹی کے دن مصروفیات سے فراغت کے بعد نیٹ فلکس دیکھنے کا اتفاق ہوا تو نئی فلم ’آئرش وش‘ کا پرومو بھی نظر آیا، جس میں ہالی وڈ کی چلبلی اور خوبرو اداکارہ لنڈزی لوہن نے اداکاری کا جلوہ ایک بار پھر سے دکھایا۔
میرا تعلق جس جنریشن سے ہے اس میں ہم سب لنڈزی لوہن کی فلمیں دیکھتے بڑے ہوئے ہیں، جن میں ’مین گرلز‘، ’ہربی‘ اور ’فریکی فرائڈے‘ جیسی مشہور فلمیں شامل ہیں۔ اس لیے جب میں نے ٹائٹل دیکھا تو مجھ سے رہا نہیں گیا کہ اس فلم کو دیکھے بغیر کوئی اور سیریز کا انتخاب کروں۔
جہاں تک بات لنڈزی لوہن کی ہے تو وہ منشیات کے استعمال اور اس سے ہونے والے مسائل کی وجہ سے کئی مرتبہ بحالی مراکز جاچکی ہیں۔
انہوں نے بالآخر اپنی زندگی کو ایک بار پھر ڈگر پر لانے کے بعد اداکاری کی دنیا میں واپس قدم نیٹ فلکس سے معاہدے کے بعد دو فلموں سے رکھا جن میں ’آئرش وش‘ شامل ہے۔
فلم کا موضوع جیسے ٹائٹل سے سمجھ آیا ٹھیک اسی طرح ایک ’فیل گڈ‘ اور ہالمارک کی کرسمس فلموں جیسا ہی لگا۔
لنڈزی لوہن کے کردار کا نام میڈیلین ہے جو ایک مشہور ناوولسٹ پال کینیڈی کے لیے بطور ایڈیٹر کام کرتی ہیں اور خفیہ طور پر ان سے پیار کرتی ہیں۔ یہ یک طرفہ محبت ہے کیونکہ پال ان کی اہمیت کو صرف ان کے کام سے تولتے ہیں۔
میڈیلین اپنے محبت کے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتیں جبکہ فلم کے شروع میں ہی ناوولسٹ کا کردار ادا کرنے والے اداکار الیکزانڈر لاہوس ان سے اظہار محبت کی بجائے نہایت پیار سے مزید کام کرنے کی ہامی بھروا لیتے ہیں۔
دوسری جانب وہ میڈیلین (میڈی) یعنی لنڈزی لوہن کی بجائے ان کی دوست میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔
میڈی کے لیے یہ سب ایک خوفناک خواب کی طرح سامنے آتا ہے جب ان کو اس جوڑے کی شادی میں بطور دوست شرکت کے لیے آئرلینڈ جانا پڑتا ہے اور خوش دکھنے کا ڈراما کرنا پڑتا ہے۔
یہاں ہیروئین کی ایئر پورٹ پر اتفاقی ملاقات ایک ہینڈسم فوٹوگرافر سے ہوتی ہے جن کا بیگ وہ غلطی سے اپنا سمجھ کے لے جانے لگتی ہیں۔
خوبصورت مناظر میں گھری اس کہانی میں مزاحیہ موڑ تب آتا ہے جب میڈی ایک تاریخی جگہ پر بیٹھی یہ دعا کرتی ہیں کہ کاش ان کی دوست کی جگہ ان کی شادی ناوولسٹ پال کینیڈی سے ہورہی ہوتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی لمحے ایک نامعلوم خاتون (جن کی شناخت بعد میں سینٹ بریجیٹ کے نام سے ہوتی ہے) نمودار ہوتی ہیں اور ان کی دعا قبول ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد سے کہانی میں ایک رخ ایسا دکھایا جاتا ہے جو شاید ہر انسان کے لیے دیکھنا ضروری ہے، اگر ہمیں وہ مل جائے جس کی ہمیں شدت سے خواہش ہے نہ کہ ضرورت، تو پھر زندگی کیسی ہوگی؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے تو آپ کو فلم خود دیکھنا پڑے گی۔ تاہم میرے خیال میں اس فلم میں ایک ضروری موضوع کو مزاحیہ انداز میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
جہاں تک فلم کے منفی پہلوؤں کی بات کی جائے تو دلکش مناظر اور منجھے ہوئے حسین اداکاروں کے باوجود کمزور ڈائیلاگ نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔
وولچر نامی جریدے کے خیال میں یہ ڈائیلاگ شاید مصنوعی ذہانت کی بدولت ہی وجود میں آئے ہیں۔
لنڈزی لوہن نے اس فلم میں ایک بار پھر سے ثابت کیا کہ وہ ماضی کی وہی ٹین ایجزز کے لیے بنائے جانے والی فلمیں کی اداکارہ ہیں جس کے الہڑ انداز اور خوبصورتی نے ان کے مداحوں کو سالوں اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔
دوسری جانب اداکاروں میں شاید مشکل سے ہی کوئی آئرش اداکار ہو کیونکہ مرکزی کردار امریکی یا برطانوی ہیں۔ فلم میں اداکاری خاصی جاندار رہی جبکہ مختلف نژاد کے اداکار بھی اہم کرداروں میں نظر آئے۔
تاہم کہانی کا پلاٹ اکثر اوقات خاصہ گھسا پٹا بھی معلوم ہوتا ہے جس کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ شاید فلم کے مناظر اور سبق آموز کہانی سے ہی کچھ بن پائے۔
روٹن ٹمویٹوز پر اس فلم کی ریٹنگ 34 فیصد ہے جو شائقین کی خفگی کا بھی ایک تاثر دیتی ہے جبکہ مبصرین نے جہاں اداکاروں خصوصی طور پر لنڈزی لوہن کے مخصوص انداز کو سراہا وہیں کہانی کی عامیت سے مایوس دکھائی دیے۔
اس سب کے باوجود میرے جیسے لوگ جو پریوں کی کہانیوں اور معجزوں پر یقین رکھتے ہیں، ان کے لیے وقت گزارنے کے لیے ایک اچھی روم کوم فلم ثابت ہوسکتی ہے۔