زبردستی کی شادی کے خلاف لڑنے والی ضلع باجوڑ کی لڑکی کی کہانی

خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والی سعیدہ گذشتہ 13 سال سے زبردستی کی شادی کی رسم ’غگ‘ کی آگ میں جل رہی ہیں۔

’میں وہ بدقسمت لڑکی ہوں جو 12 سال کی عمر میں غگ جیسی بری رسم کی شکار ہوئی اور 13 سال سے اس جاہلانہ رسم کی آگ میں جل رہی ہوں۔ میں سکول یا مدرسے نہیں جا سکی کیوں کہ مجھے اغوا ہونے کا ڈر تھا۔‘

25 سالہ سعیدہ یہ کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔ ان کا استاد بننے کا خواب اس وقت چکنا چور ہو گیا جب اس کے کزن نے ان پر غگ کیا۔

غگ اور دیگر پرانے رسم و رواج، جیسے بچپن کی شادیوں اور سورا کی وجہ سے پختون معاشرے میں بہت سی لڑکیوں کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ لیکن سعیدہ کی کہانی کچھ مختلف ہے۔ بہت سی دوسری لڑکیوں کے برعکسان کے خاندان نے معاشرے کے قوانین کو توڑتے ہوئے سعیدہ کی بھرپور حمایت کی۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کچھ قبائلی علاقوں میں غگ کی رسم کے ذریعے صدیوں سے خواتین کے حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے۔اس رسم میں علاقے کا کوئی بھی مرد کسی خاتون سے رشتے کے غرض سے ان کے گھر کے سامنے فائر یا اعلان کر تا ہے، جس سے وہ خاتون نہ چاہتے ہوئے بھی اس مرد کے رشتے میں آ جاتی ہے اور کوئی دوسرا اس سے شادی نہیں کر سکتا۔

سابق صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود اور خواتین خیبر پختونخوا ستارہ ایاز کی کوششوں سے 2013 میں خیبر پختونخوا میں غگ کے ختمے اور اسے غیر قانونی قرار دینے کی غرض سے قانون بھی بنایا گیا تھا۔ 

قانون کی موجودگی کے باوجود سعیدہ جیسی خواتین کے لیے انصاف کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ 

چار سال قبل سعیدہ کے خاندان نے اس شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی جس نے انہیں زبردستی شادی پر مجبور کرنے کی کوشش کی اور اسے ایک مہینے کی قید بھی ہوئی۔ بعدازاں سعیدہ کو پریشان نہ کرنے کے وعدے پر اس کی ضمانت ہوئی۔ 

اس دوران سعیدہ کی کسی اور سے منگنی ہو گئی۔ گذشتہ سال ان کے منگیتر نے غگ کرنے والے مجرم کی دھمکیوں کے بعد رشتہ توڑ دیا۔

’جب میرے منگیتر کا مجھ سے رشتہ ٹوٹ گیا تو میں ڈیپریشن میں چلی گئی اور بہت  ناامید محسوس کیا۔ یہاں تک کہ اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں بھی سوچا۔

’اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے خاندان والے میری وجہ سے بہت مشکل میں تھے  اور میرے بھائی کو میری مدد کے لیے لندن میں اپنا کاروبار چھوڑ کر واپس آنا پڑا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میرے بھی اور دوسرے گھر والوں نے مجھے ہمت دی اور  میرے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے۔‘

پشاور ہائی کورٹ کی وکیل مہوش محب کاکاخیل بتاتی ہیں کہ ’قانون میں بذات خود خامی نہیں ہے۔ یہ بالکل واضح ہے۔ تاہم پولیس اور لوگوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے کیسز پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غگ کرنے والا شخص اگر کسی دوسرے شہر میں رہتا ہے جہاں وہ قانون لاگو نہی ہوتا تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی جب کہ ایف آئی آر میں ایک سے زیادہ افراد کے نام درج کرنا بھی مقدمات کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔

’غگ ایکٹ کے مطابق صرف ایک شخص پر الزام لگایا جا سکتا ہے لیکن لوگ اکثر ایف آئی آر میں ایک سے زیادہ مرد ارکان کو نامزد کرتے ہیں، جس کی وجہ سے طویل تحقیقات ہوتی ہیں اور کیس کی کارروائی میں تاخیر ہو جاتی ہے اور مجرم کی بعض اوقات ضمانت ہو جاتی ہے۔‘

سعیدہ کے بھائی عنایت اللہ بتاتے ہیں کہ غگ کا واقعہ باجوڑ میں پیش آیا، لیکن ہم مقدمہ درج نہیں کر سکے کیونکہ فاٹا کا حصہ ہونے کی وجہ سے وہاں قانون نافذ نہیں تھا۔

تاہم قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد وہ ملزم اور اس کے خاندان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔

پشاور ہائی کورٹ کی وکیل مہوش کاکاخیل کہتی ہیں کہ ججز اور پولیس کے لیے قانون کو بہتر طور پر سمجھنا ضروری ہے تاکہ وہ اسے درست طریقے سے نافذ کر سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین