معیشت اور ہماری نو آبادیاتی بیوروکریسی ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہماری ترجیح کیا ہے۔ اچھی معیشت یا نو آبادیاتی بیوروکریسی؟
ہماری بیوروکریسی معیشت دوست نہیں ہے۔ معیشت کی راہ میں یہ ایک رکاوٹ ضرور ہے۔ ضابطوں کا ایک ایسا پیچیدہ اور شیطانی سلسلہ جس میں سرمایہ کار بیوروکریسی کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں سرمایہ کار کے لیے سہولیات ہیں۔ ہمارے ہاں ضابطوں کا کوڑا ہے، جسے بیوروکریسی نے تھام رکھا ہے، جب اور جس کی چاہے کمر لال اور ہری کر دے۔
کسی سرمایہ کار نے درمیانے درجے کا ایک یونٹ لگانا ہو تو درجنوں محکموں کے بیسیوں قوانین اس کی دہلیز پر دستک دینے آ جاتے ہیں۔ افسر شاہی کے داروغے اس کے علاوہ ہیں۔ ایک این او سی، پھر دوسرا این او سی، پھر تیسرا این او سی۔ کسی کاروباری آدمی سے پوچھیے کہ ملک میں سرمایہ کاری کی راہ میں کیا کیا رکاوٹیں حائل ہیں۔ سرفہرست بیوروکریسی ہی ہوگی۔
نوکرشاہی نے ایک ایسا پیچیدہ نظام وضع کر رکھا ہے کہ اس کی خوشنودی کے بغیر سرمایہ دار دو قدم نہیں چل سکتا۔ کسی کی فائل دبا لی، کسی کی غائب کر لی، کسی پر اعتراض لگا دیا، کہیں کوئی قانونی نکتہ نکال لیا۔ یہ سرمایہ کاری کی معاونت نہیں کرتی، اسے منجمد کرتی ہے۔ ان حالات میں سرمایہ دار معیشت پر توجہ دے یا صرف بیوروکریسی کی معیشت کا بوجھ اٹھائے؟
بیوروکریسی کی ساخت نو آبادیاتی اور اس کا مزاج ایسٹ انڈیا کمپنی والا ہے۔ اختیارات لامحدود، وسائل بے پناہ اور احتساب کا کوئی نظام نہیں۔ عوام اس کے نزدیک رعایا اور سرمایہ دار اس کے نزدیک ایک ’امکان‘ ہے۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح عوام سے دور اور مقامی معیشت سے لاتعلق ہے۔
بس اس کی اپنی معیشت ٹھیک رہنی چاہیے اور مراعات کے چشمے کبھی خشک نہیں ہونے چاہییں۔
اقوال زریں الگ، عملی زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ بیورکریسی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہے۔ کسی نے پھر بھی سرمایہ کاری کرنا ہے تو بیوروکریسی کی یہ رکاوٹیں اسے اپنے سرمائے کے زور پر عبور کرنی ہیں، فائلوں کو پہیہ خود لگانا ہے، بابو لوگ اس مشق میں معاون نہیں ہوں گے، ضابطوں کی رکاوٹ ڈال کر داد وصول کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی حقیقت کو پاکستان میں سعودی عرب کے سابق سفیر جناب علی عواض العسیری انڈپینڈنٹ اردو میں 26 جولائی 2023 کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں یوں بیان کرتے ہیں: ’پاکستان میں سرمایہ کاری میں شدید کمی کی ایک اہم وجہ غیرضروری بیوروکریٹک رکاوٹیں اور ریگولیٹری تقاضے ہیں، جو دراصل سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور نئے منصوبوں کے آغاز کے علاوہ پرانے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب ہیں۔‘
سوال یہ ہے کہ جو بات علی عواض العسیری سمجھ سکتے ہیں وہ بات ہمارے فیصلہ سازوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟ ہم سرمایہ کاروں کےلیے ون ونڈو آپریشن کیوں نہیں شروع کر پائے؟ یقیناً اس کی راہ میں بھی بیوروکریٹک رکاوٹیں ہی حائل ہوں گی۔
نو آبادیاتی بیوروکریسی کا ڈھانچہ فرسودہ ہے۔ یہ دورِ غلامی میں تو چل سکتا تھا لیکن آزاد ریاست اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ کوئی تسلسل نہیں۔ کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ آج ایک صاحب سیکرٹری ہیلتھ ہوتے ہیں، چار ماہ بعد سیکرٹری خزانہ بنا دیے جاتے ہیں، آج زراعت کے سیکرٹری ہوں گے، دو ماہ بعد سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے سیکرٹری بن جائیں گے۔
نہ کوئی مہارت، نہ افتاد طبع، بس کہیں سمجھ لیا گیا ہے کہ بیوروکریٹ ٹارزن ہوتا ہے۔ جس وزارت میں بھی بھیج دو چلا لے گا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ان کی زیادہ تر توجہ اسی بات پر ہوتی ہے کہ مراعات کیسے ہتھیائی جائیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد پلاٹوں کی جمع تقسسیم کیسے کی جائے۔
چنانچہ بیوروکریسی نے صرف ایک کام میں شاندار کارکردگی دکھائی ہے اور وہ ہے مراعات کا حصول۔ امریکی صدر 152 کنال کے گھر میں رہتا ہے اور سرگودھا کا کمشنر 104 کنال کے گھر میں۔ سرکاری زمینوں پر ان کے لیے کہیں اسلام آباد کلب قائم ہے تو کہیں جم خانہ۔ سرکاری زمینوں پر ہر ضلعے میں بنے آفیسرز کلبوں کا تو کوئی شمار نہیں۔
بیوروکریسی ہماری قومی معیشت کا وہ سوراخ ہے جو قومی خزانے کو بھرنے نہیں دیتا۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق ہمارے بیوروکریٹ کی اوسط تنخواہ اقوام متحدہ کے سٹاف کی تنخواہ سے 12 فیصد زیادہ ہے۔ صرف اسلام آباد میں بیوروکریسی کے محلات کا رقبہ 864 ایکڑ ہے اور یہ 20، 30 اور 40، 50 ایکڑ کے سائز کے ٹکڑوں میں بنائے گئے ہیں، یعنی یہ قطعات اراضی کمرشل استعمال کے لیے موزوں تر ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس ہی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں یہ سرکاری رہائش گاہیں، جہاں یہ چھوٹے اور بڑے بابو صاحبان قیام پذیر ہیں، اگر نجی شعبے کے حوالے کر دی جائیں تو تقریباً پونے دو کھرب روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔ انہیں صرف کرائے پر چڑھا دیا جائے تو 13، 14 ارب روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔
بیوروکریسی کا یہ مال غنیمت ہماری جی ڈی پی کا پانچ فیصد یا اب شاید اس سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ یہ ہماری معیشت کا بلیک ہول ہے۔ فیصلہ کر لیجیے کہ آپ کو کیا چاہیے: معیشت یا نو آبادیاتی بیوروکریسی؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔