پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک تجربہ کار سعودی سفارت کار کا کہنا ہے کہ اس وقت وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس سے وہ نئے وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ملک کے مستقبل کے حوالے سے بہت ’پرامید‘ ہیں۔
عرب نیوز کے ہفتہ وار حالات حاضرہ کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر علی عواض العسیری نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ 2024 کے انتخابات کے نتائج پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان پہلے سے مضبوط تعلقات کو مزید مستحکم کریں گے۔
پارلیمنٹ میں 201 ووٹ حاصل کرنے کے بعد شہباز شریف تین مارچ کو دوسری بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ گذشتہ ماہ پاکستان میں انتخابات ایک ایسے وقت میں منعقد ہوئے جب ملک کو مہنگائی، بے روزگاری، توانائی کی قلت اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
2001 سے 2009 تک پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر رہنے والے ڈاکٹر علی عواض العسیری کا کہنا ہے کہ ’شہباز شریف ایک بہت ہی تجربہ کار شخص ہیں جو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلٰی رہ چکے ہیں۔ ان کے پاس تجربہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ایک اچھی پروفیشنل ٹیم کا انتخاب کر لیا ہے۔‘
پاکستان کی مشکلات میں اضافہ 2022 میں سیلاب کا ایک سلسلہ تھا۔ ورلڈ بینک کے تخمینے کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں سے 30 بلین ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔
ڈاکٹر علی عواض العسیری، شہباز شریف کو ’ان کے تجربے، ان کی حب الوطنی، اپنے ملک کے ساتھ ان کی وفاداری اور زیادہ تر لوگوں میں ان کی قبولیت‘ کی وجہ سے موجودہ حالات میں پاکستان کی قیادت کرنے کے لیے بہترین سیاست دان سمجھتے ہیں۔
فرینکلی سپینگ کی کیتھی جینسن نے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’فی الحال یہ کہوں گا کہ میں ان کے تجربے، شریف کی شخصیت، اپنے ملک کے ساتھ ان کی وفاداری کے بارے میں جانتا ہوں تو یہ مجھے ہمیشہ اپنی امید اور ان کی کامیابی کے لیے دعاؤں کو دہرانے کا باعث بنتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’امید ہے کہ پاکستان اپنی معیشت کو سنبھالے گا اور خود ہی اس سے نمٹے گا۔ میرے خیال میں الیکشن کے دوران یہی نعرہ تھا۔‘
آئی ایم ایف نے پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک اس کو 22 قرضے فراہم کیے ہیں، جس نے قرض کی ادائیگی میں نادہندہ ہونے سے گریز کیا اور گزشتہ سال آئی ایم ایف سے تین بلین ڈالر کا سٹینڈ بائی ارینجمنٹ قرض حاصل کیا۔
ڈاکٹر علی عواض العسیری نے کہا کہ ’میرے خیال میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے مدد ملے گی۔ یہ ایک قابل بھروسہ حکومت ہے، ایک پروفیشنل حکومت ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ان کے لیے سودا کرنا اتنا مشکل نہیں ہو گا جتنا ماضی میں حکومت کے بغیر ہوتا رہا ہے۔‘
’وہ تجربہ کار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔۔۔ میں جو دیکھ رہا ہوں وہ پروفیشنل وزرا کے انتخاب میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ جب آپ کسی وزیر کو سیٹ پر بٹھاتے ہیں تو مطابقت بھی بہت ضروری ہے۔ امید ہے کہ سب کچھ آج کی نسبت آگے جا کر بہتر ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو معاشی بحالی کے لیے کثیرالاجہتی نقطہ نظر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں وسائل کا بہتر استعمال، صنعت کاری اور مضبوط بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کا فروغ شامل ہے۔
شہباز شریف کا دوبارہ انتخاب کئی برس کے سیاسی انتشار کے بعد ہوا، جس کا آغاز 2022 میں ہوا جب عمران خان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا اور کرپشن کے الزام میں ان کو جیل بھیج دیا گیا۔ 2022 میں ہی پاکستان مسلم لیگ نواز نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا۔
عمران خان اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ آٹھ فروری کو عوام کا مینڈیٹ چرایا گیا۔ ان کی پارٹی کے حامی امیدواروں کو قومی اسمبلی میں 93 نشستیں ملیں۔
اس سوال پر کہ کیا انتخابات منصفانہ اور شفاف تھے؟ العسیری نے کہا کہ ’میں نے پاکستان میں نو سال گزارے اور ہر الیکشن میں اپوزیشن کا ایک ہی نعرہ ہو گا لیکن بات یہ ہے کہ پاکستان کی مدد کون کرے گا؟‘
’ظاہر ہے کہ اپوزیشن ہمیشہ حکومت کے خلاف کچھ نہ کچھ کہتی ہے۔ چاہے وہ عمران خان ہو یا باقی سب۔‘
العسیری کا کہنا ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ اور گڈ گورننس کے لیے کام پاکستانی عوام کا اپنے رہنماؤں اور حکام پر اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری ہے۔
گزشتہ ماہ کیے گئے ایک گیلپ سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ تقریباً 70 فیصد پاکستانیوں نے انتخابات پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے جبکہ 88 فیصد آبادی کا خیال ہے کہ پاکستان میں کرپشن بڑے پیمانے پر ہے۔
ڈاکٹر علی عواض العسیری نے کہا کہ ’میرے خیال میں ماضی میں گورننس اتنی اچھی اور پیشہ ورانہ نہیں تھی جتنی ہونی چاہیے تھی۔‘
’پاکستانی عوام بخوبی جانتے ہیں کہ معیشت کی بحالی میں کیا چیز مدد کر سکتی ہے۔ گزشتہ تین یا چار سالوں میں ان کی کرنسی کی قدر میں کافی کمی آئی ہے۔ (ان مسائل کا) جواب اچھی حکمرانی ہے اور آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ مجھے بہت پر امید ہونے کی طرف لے جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان بہترین تعلقات ہیں، اور یہ تعلقات 1943 سے قائم ہیں۔ شاہ عبدالعزیز اور ان کے صاحبزادوں نے کراچی کا دورہ کیا تھا جب پاکستان میں سیلاب آیا تھا اور انہوں نے مدد کی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ہر قیادت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ یہ عوام سے عوام کا تعلق ہے۔‘
2022 کے تباہ کن سیلاب کے دوران، سعودی عرب کے شاہ سلمان ہیومینٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر نے پاکستان کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں امداد بھیجی۔
اتوار کو کنگ سلمان ریلیف سینٹر نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی امداد کے 873 ٹن ضروری اشیائے خوردونوش سے لدے ٹرک گوادر بھیجے۔
سابق سفارتکار کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے کبھی پاکستان کو ضرورت کے وقت ناامید نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کئی مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کتنا اہم ہے اور ہمارے تعلقات کتنے اہم ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ آگے چل کر سعودی پاکستان تعلقات سے دونوں ممالک کو بہت زیادہ اقتصادی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس پبلک انویسٹمنٹ فنڈ ہے۔ یہ واقعی پاکستان جا سکتا ہے اور بڑی فیکٹریوں میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے اور مزید پیداوار کے لیے انہیں اپ گریڈ کر سکتا ہے۔‘
’اب قیادت کے پاس بہت سے شعبے ہیں، ہمارے پاس متحرک و موثر سعودی قیادت، حکمت عملی اور اقتصادی حکمت عملی بھی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم پاکستان کی مزید مدد کر سکتے ہیں اور وہ خود بھی اپنی مدد کرے گا۔‘
اس سوال پر کہ وہ سعودی نقطہ نظر سے شہباز شریف کو کیا مشورہ دیں گے، العسیری نے کہا کہ کرپشن کی تحقیقات کریں۔ صنعتی شہروں کو اپ گریڈ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ان کے پاس واقعی اچھا مواد ہے۔ ہر جگہ سے سرمایہ کاری کو راغب کریں۔ معیشت پاکستانیوں اور پاکستان کی مدد کا جواب ہے۔‘
العسیری نے پاکستان اور اس کے پڑوسی ملک انڈیا کے درمیان دیرینہ دشمنی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے ممکنہ فوائد کے بارے میں لکھ چکے ہیں تاہم اب وہ کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اب بھی بہتر ہو سکتے ہیں۔
’ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کیا جائے کیونکہ پاکستان اور انڈیا کے عوام کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان رسائی اور سفر کو آسان بنانے اور دونوں ملکوں کے درمیان کاروباری معاہدوں کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔‘
’امید ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعمیری بات چیت کا آغاز ہو گا اور دونوں ممالک میں امن اور استحکام کا باعث بنے گا۔‘
العسیری کو کوئی شبہ نہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالثی کا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دونوں ممالک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات سے ہیں۔
’یہ ایک عمل ہے۔ یہ واقعی ایک مختصر وقت میں نہیں ہو سکتا۔ یہ عمل دونوں ممالک کے درمیان ایک اچھے حل کی جانب جاتا ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔