جنوبی ایشیا کے لیے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو نے بدھ کو ایوان نمائندگان کے سامنے ایک بار پھر ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ ان کا یا امریکہ کا سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے خلاف لائی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک میں کوئی بھی ہاتھ ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ان کی جان کو کچھ افراد کی جانب سے خطرہ ہے، جس کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
انہوں نے یہ بات واشنگٹن ڈی سی میں وزارت خارجہ کی ذیلی کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوران سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔
اس کمیٹی نے پاکستان میں انتخابات، جمہوریت اور اس تناظر میں پاکستان۔امریکہ تعلقات کے موضوع پر ایک سماعت مقرر کی تھی اور ڈونلڈ لو چونکہ جنوبی اور وسطی ایشیا بیورو کے سربراہ ہیں، اس لیے ان کو بطور گواہ بلایا گیا تھا۔
ڈونلڈ لو نے اپنے تحریر شدہ بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کے حالیہ انتخابات شفاف نہیں ہیں اور اس بات کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ بات پہلی بار نہیں کر رہے بلکہ امریکی وزارت خارجہ انتخابات کے دیر سے جاری کیے جانے والے نتائج، پولنگ کے عمل میں بے قاعدگی اور سیاسی سرگرمیوں میں دخل اندازی کے علاوہ انٹرنیٹ کی سہولت بند کیے جانے کے حوالے سے پہلے ہی یہ نکات اٹھا چکی ہے۔
ذیلی کمیٹی کے 12 ارکان نے پانچ پانچ منٹ کا وقت لیتے ہوئے باری باری سوال کیے۔ اس سماعت کو شروع کرتے ہوئے کمیٹی کے چیئرمین جو ولسن کا کہنا تھا کہ امریکہ جمہوری اقدار پر یقین رکھتا ہے اور پاکستان کے حالیہ انتخابات کے متنازع نتائج دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے اچھے نہیں۔
کمیٹی کا یہ اجلاس 30 سے زائد گانگریس کے ارکان کی جانب سے لکھے گئے ایک خط کے نتیجے میں بلایا گیا تھا، جس میں انتخابات کی شفافیت پر تنقید کی گئی تھی۔
ڈونلڈ لو کو کمیٹی میں سخت سوالوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے کسی بھی طور پر عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کی کسی سرگرمی میں بلاواسطہ یا بلواسطہ حصہ لیا تھا؟ جس کا جواب ڈونلڈ لو نے نفی میں دیا۔
کمیٹی کے ارکان نے یہ بھی سوال کیا کہ کیا عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا جانا ان کی روس سے قربت بڑھنے کا نتیجہ تو نہیں تھا؟ جس کا جواب ایک بار پھر ڈونلڈ لو نے نفی میں ہی دیا لیکن اس دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سپورٹرز نے ’جھوٹا، جھوٹا‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔
اس پر رکن ایوان رچ میکورمک نے تنبیہہ کی کہ اگر کسی نے دوبارہ کمیٹی کی کارروائی روکنے کی کوشش کی تو کارروائی کو معطل کر دیا جائے گا، جس کے بعد نعرے بازی کرنے والے پی ٹی آئی کے حامیوں کو سکیورٹی اہلکاروں نےکمرے سے باہر بھیج دیا۔
ڈونلڈ لو نے اس بات کی تائید کی کہ پاکستان کو دہشت کردی کا سامنا ہے جب کہ اس کی معیشت دن بدن بدحالی کا شکار ہو رہی ہے۔ ان کے تحریری جواب کے مطابق پاکستان کا 70 فیصد بجٹ صرف لیے گئے قرضوں پر سود ادا کرنے پر خرچ ہو جائے گا، جس پر تمام کمیٹی کے ارکان نے متفقہ طور پر تشویش کا اظہار کیا۔
ڈونلڈ لو نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ پاکستان میں آزادی اظہار کو سینسر شپ کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے افراد سیلف سینسر شپ کر رہے ہیں جب کہ بہت سے افراد ریاستی سینسر شپ سے نمٹ رہے ہیں۔
رچ میکورمک کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو کیا پاکستانی عدالتوں پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس مسئلے کی درست تحقیقات کریں گی؟ اس سوال کے جواب میں ڈونلڈ لو کا کہنا تھا کہ ’یہ کام پاکستان کے الیکشن کمیشن اور وہاں کے عدالتی نظام کا ہے جبکہ اصل فیصلہ پاکستان کے عوام کریں گے۔ امریکہ ان معاملات پر نظر رکھ سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان سے نو منتخب پاکستانی حکومت کو تسلیم کرنے کے بارے میں بھی سوال کیا گیا جس کا جواب ڈونلڈ لو نے کھل کر نہیں دیا۔ صدر جو بائیڈن پہلے ہی نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کو الیکشن جیتنے پر مبارک باد دے چکے ہیں۔
کمیٹی کے رکن بریڈ شرمن جو پاکستان، انڈیا اور کشمیر کے موضوعات پر بہت بار بات کرچکے ہیں، کا کہنا تھا کہ نو مئی 2023 کے بعد سے بہت سے سیاست دان جیلوں میں ہیں، جن میں کچھ امریکی شہری بھی ہیں، جو واپس امریکہ نہیں آ سکے۔
انہوں نے سوال کیا کہ عمران خان کو کسی ’سلیکٹو جسٹس‘ کا سامنا تو نہیں؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ امریکہ کے پاکستان میں سفیر کو عمران خان سے جیل میں ملنا چاہیے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ڈونلڈ لو کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں فوج ہمیشہ مداخلت کرتی رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا کیا جواز ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی، جنہوں نے اسامہ بن لادن جیسے مطلوبہ شخص کے متعلق معلومات فراہم کیں وہ آج تک پاکستان کی جیل میں قید ہیں؟
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔ کوئی قتل ہوا نہیں تھا۔ اگر پاکستانی ریاست ان کے بدلے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنے کو تیار ہے تو ایسا کیوں نہیں کیا جا رہا؟ اس پر کمیٹی روم میں بیٹھے افراد نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔
ڈونلڈ لو کا کہنا تھا کہ وہ موجود پوسٹ پر ڈھائی سال سے تعینات ہیں اور آج تک کسی پاکستانی سرکاری عہدیدار نے ان سے ڈاکٹر شیکل آفریدی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
ڈونلڈ لو سے پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے پراجیکٹ پر دوبارہ کام شروع ہونے اور ایران کے تیل کی غیر قانونی ترسیل پر پابندی کے حوالے سے بھی سوال کیے گئے۔
جیسے ہی ڈونلڈ لو پاکستان کے عام انتخابات اور ان کے نتائج کے بارے میں بات کرتے تو کمیٹی روم میں بیٹھے افراد ان کے خلاف نعرے بازی شروع کردیتے۔
ڈونلڈ لو سے خالصتان تحریک کے امریکہ میں مقیم سربراہ گرپتونت سنگھ پنوں کو انڈیا کی جانب سے مبینہ طور پر مارنے کی کوشش کے حوالے سے بھی سوال کیا گیا، جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ انڈیا اور امریکہ کے درمیان ایک سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے جب کہ اس معاملے پر انڈین حکومت کو خبردار بھی کیا گیا ہے۔
اجلاس کا اختتام ہوا تو پی ٹی آئی کے کارکن اپنی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر ڈونلڈ لو کے خلاف نعرے لگانے لگے جب کہ عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی بار بار نعروں کی صورت میں ہوتا رہا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔