حکومت کی جانب سے تشہیر کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ یہ تشہیر نئی حکومتی سکیموں کے لیے کی جاتی ہے، شہریوں کے حقوق، تحفظ کے حوالے سے معلومات وغیرہ کے لیے کی جاتی ہیں۔ لیکن یہی تشہیر پروپیگنڈا کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ مختلف حکومتیں اپنی اور اپنے قائدین کی تشہیر کے لیے مختلف حربے استعمال کرتی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت جو حکومت میں ہوتی ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح اپنے لیڈران کی پبلسٹی کی جائے۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے تشہیر میں پارٹی قیادت کی تصویر لگانا کتنی درست ہے۔ اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ حکومتی جماعت اپنے فنڈز میں سے تو یہ تشہیر نہیں کر رہی ہے۔ آگر آٹے کی بوری ھر کسی جماعت کے قائد کی تصویر ہے یا کسی امدادی پیکج پر سیاسی جماعت کے رہنما کی تصویر ہے تو کیا یہ آٹے کی بوری یا امدادی پیکج اس سیاسی جماعت کے اپنے فنڈ میں سے دیے جا رہے ہیں یا سرکاری خزانے میں سے؟ کیا اس آٹے کی بوری یا امدادی پیکج یا کسی اشتہار میں صرف اس صوبے یا وفاقی حکومت کا لوگو ہی کافی نہیں ہے؟ کیا فرد واحد کی تشہیر سرکاری خزانے میں سے کی جا سکتی ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ 90 کی دہائی کی تشہیر کا طریقہ 2024 میں نہیں چلے گا۔ نہ تو یہ وہ وقت ہے جب ایک ہی چینل ہوتا تھا اور جو دکھانا ہوتا تھا دکھا دیا جاتا تھا۔ اب عوام اس قسم کے تشہیر میں نہیں پھنستے اور وہ سوال پوچھتے ہیں۔ حالیہ عام انتخابات میں عوام نے یہ بات باور کرا دی ہے کہ کام کرو تو ہم تمہارے ساتھ ہیں ورنہ ٹاک ٹاک اور یو ٹیوب پر ویڈیوز سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جہاں یہ تشہیری ویڈیوز ہیں وہیں ان کا تیا پانچا کرنے والی بھی ویڈیوز موجود ہیں۔
2022 میں سپریم کورٹ کے بینچ، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سید منصور علی تھے، کے سامنے ایک کیس آیا کہ الاٹمنٹ کی دستاویز ملتی ہے اس پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ کی تصویر ہوتی ہے۔ اس پر بینچ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اس تصویر کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ جس کی تصویر ہے وہ ان افراد کا محسن ہے جن کو یہ دستاویز ملی اور وہ افراد اس کے ممنون رہیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر وہ واقعتاً بے گھر لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے تو اس کو کوئی نہیں روک رہا کہ وہ اپنی پراپرٹی لوگوں میں بانٹ دے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ اپنی تصویر لگا سکتا ہے۔ سرکاری ریکارڈز پر اپنی تشہیر اور اپنے آپ کو عظیم پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘
اسی فیصلے میں کہا گیا کہ نہ تو پاکستان میں بادشاہت ہے، نہ ہی پرنسپیلیٹی یعنی حکمرانی اور نہ ہی فیفڈوم ہے، جہاں لوگ اپنے حکمرانوں کے مشکور ہیں۔ ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ملک آزاد اور جمہوری ہے۔ سیاستدانوں کا نام ان کے اصولوں اور کاموں کے حوالے سے ہوتا ہے۔
اپنے حکم میں جسٹس صاحبان نے لکھا کہ ملک کے آئین میں حلف موجود ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’میں اپنے ذاتی مفادات کو اپنے ضابطہ اطوار یا فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دوں گا‘۔
سرکاری امداد ہو یا دستاویز ان پر کسی بھی سیاسی رہنما کی تصویر لگانا ذاتی مفادات کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی اجازت نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے حلف کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ آئینی عہدہ رکھنے والے ہوں یا حکومت میں سیاستدان کو اپنی سرکاری پوزیشن کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔
پوچھنا یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کی بینچ کا فیصلہ آٹے کی بوری پر بھی لاگو ہوتا ہے یا نہیں؟ اور کیا 2022 کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی تھی؟ اگر اپیل دائر کی گئی تو کیا فیصلہ آیا؟ مختصراً کیا آٹے کی بوری پر لگائی گئی تصویر عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کون اس پر ایکشن لے گا؟