سندھ کی قدیم بندرگاہ کیٹی بندر کے ماہی گیروں کے لیے 20 مارچ کسی طور عید سے کم ثابت نہیں ہوا کیوں کہ اس دن بحیرہ عرب کی کائنر کریک میں ان کے جال میں بڑی تعداد میں قیمتی اور نایاب مگر معدومی کے خطرے سے دوچار ’سوا‘ مچھلی پھنسی۔
کوسٹل میڈیا سینٹر کے ترجمان کمال شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ کوئی بندرگاہ یا جے ٹی نہیں بلکہ کیٹی بندر حجامڑو کری کا کھلا سمندر ہے اور یہاں تین سے چار کشتیاں جمع ہو گئیں تھیں اور بڑی تعداد میں ’سوا‘ مچھلی کا شکار کیا گیا۔‘
تاہم جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے معاون محمد معظم کے مطابق کروکر نسل سے تعلق رکھنے والی سوا مچھلی کا بڑے پیمانے پر شکار اس کی نسل کے معدوم ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔
معظم خان نے مزید بتایا کہ مارچ اور اپریل میں یہ مچھلی انڈے دینے کے لیے جمع ہوتی ہیں اور اس وقت اس کا شکار سوا مچھلی کو معدوم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
کمال شاہ کا کہنا تھا کہ 40 کلو نر سوا مچھلی (جسے گولڈن سوا بھی کہا جاتا ہے) کی مالیت سوا کروڑوں روپے ہے، جب کہ مادہ سوا کی قیمت زیادہ سے زیادہ 50 لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماہی گیروں نے ایک وقت میں چھوٹی بڑی تقریباً پانچ ہزار سوا مچھلیاں پکڑی اور اس میں مچھیروں کی کئی کشتیوں نے حصہ لیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 20 مارچ کو پکڑی جانے والی سوا مچھلی کی مجموعی قیمت کا تخمینہ تقریباً ایک ارب روپے لگایا گیا ہے۔
اس مچھلی کو سندھی میں ’سوّا‘ اور بلوچی میں ’کر‘ کہا جاتا ہے جبکہ اس کا نباتاتی نام ارگائیروسومس جیپونیکس ہے۔
کمال شاہ کا کہنا تھا کہ سوا مچھلی کا شکار ایک کٹھن کام ہے، جس میں ماہی گیر سمدنر میں ڈیزل پھینکتے ہیں تاکہ شکار کو بے ہوش کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جب ادھ مری سوا مچھلیاں پانی کی سطح پر تیرنے لگتی ہیں تو مچھیرے انہیں پکڑ لیتے ہیں۔‘
ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے معاون محمد معظم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سوا مچھلی کے مہنگے ہونے کی وجہ اس میں موجود ایئر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے یہ پانی میں اوپر اور نیچے آ جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوا کا بلیڈر چین کے روایتی کھانوں میں استعمال ہوتا ہے، جب کہ ادویات اور سرجری میں استعمال ہونے والے دھاگے بھی اس سے بنائے جاتے ہیں۔
سوا مچھلی کے بلیڈر سے چین، سنگا پور اور ہانگ کانگ میں خاص قسم کی یخنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔
معظم خان کا کہنا تھا کہ سوا مچھلی کا سائز ڈیڑھ میٹر اور وزن 30 سے 40 کلو گرام تک ہو سکتا ہے اور یہ پورا سال پکڑی جاتی ہے۔ تاہم نومبر سے مارچ تک اس کی دستیابی آسان ہو جاتی ہے کیونکہ یہی اس کا بریڈنگ سیزن ہے۔