وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بن چکی ہیں اور اگلے چند دنوں میں سینٹ کے انتخابات بھی پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔
ن لیگ وفاق میں کمیٹیوں کی تشکیل کے تنازعے میں پھنس کر نکلی تو احد چیمہ اور ایچی سن کے پرنسپل کے استعفے میں اٹک گئی، فی الحال معیشت کو سنبھالنے کے مشکل فیصلے اور وزیراعظم شہباز شریف کے میثاق مفاہمت کی پیشکش حکومت اور میڈیا کے ریڈار پر جگہ نہیں بنا پائی۔
باالفاظ دیگر سیاست ہو یا ملکی معاملات، آٹھ فروری کے ہینگ اوور سے فی الحال نہیں نکل پائے۔
تحریک انصاف ابھی تک ضمانتوں اور کاغذات نامزدگی کی منظوری اور مسترد ہونے کے علاوہ اہم رہنماؤں کے اندرونی اختلافات میں پھنسی نظر آرہی ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ گذشتہ سال دو سال میں طرز سیاست اور اس کے اثرات نے پورے معاشرے کو جس طرح جکڑے رکھا اس کو ابھی تک صرف دوام ہی مل رہا ہے۔
صحافی اسد طور کی رہائی اور تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں کے سینٹ انتخابات میں کاغذات نامزدگی کا منظور ہونا اچھی خبریں ہیں اور اب ملک کو آگے کی طرف چلانے کے لیے ضروری یہ ہے کہ ہر وہ عمل جس سے سیاسی انتقام جھلک رہا ہے اس پر اب فل سٹاپ لگایا جائے۔
سیاسی جماعتوں کو بھی اب اپنے طرز سیاست سے یہ پیغام دینا لازمی ہے کہ انہیں عوام کی تکالیف سے نکالنے اور بحران زدہ ملک کو آگے چلانے کا نہ صرف احساس ہے بلکہ ان کے پاس اس کا روڈ میپ بھی موجود ہے۔
اس وقت معیشت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی درد سر بن چکے ہیں۔ چاہے وہ پختونخوا ہو یا بلوچستان دونوں صوبوں میں سکیورٹی فورسز پر بڑھتے ہوئے حملے ریڈ لائٹ کو بار بار فلیش کر رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی سے تفصیلی نشست میں بلوچستان کے معاملات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سرفراز بگتی کو نہ صرف مسائل کا ادراک ہے بلکہ وہ ابھی سے حل بھی تجویز کر رہے ہیں۔
ناراض بلوچوں کے لیے انہوں نے نہ صرف عام معافی کا اعلان کیا بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام سٹیک ہولڈرز ان کے ساتھ آن بورڈ ہیں اور کابینہ کی تشکیل کے فورا بعد وہ ایک پارلیمانی کمیٹی بنا کر پہلے یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ایک حکمت عملی پر اتفاق رائے پیدا کریں گے اور اس کے بعد اپنی اس کوشش کو وہ خود لیڈ کریں گے۔
اس سے پہلے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی اپنے دور حکومت میں ایسے ہی ایک عمل کو خود لیڈ کر چکے ہیں اور اس میں پیش رفت بھی ہوئی لیکن یہ عمل کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ پایا۔
اس کی ایک بڑی وجہ حکومت اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کچھ معاملات پر اتفاق رائے کا نہ ہونا تھا۔ شاید اسی لیے اس بار سرفراز بگٹی پہلے حکومت اور باقی سٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے پیدا کر کے ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان کا ایک اور بڑا مسئلہ کرپشن اور بیڈ گورننس بھی ہے جسے نو منتخب وزیراعلیٰ ان الفاظ میں تسلیم کرتے ہیں کہ ’یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔‘
یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ بلوچستان میں ایسی ترقیاتی سکیموں کی ایک بڑی تعداد ہے جن پر ابھی کام شروع نہیں ہوا لیکن ٹھیکیداروں کو کروڑوں روپے کی ایڈوانس ادائیگی ہو چکی ہے۔
اسی طرح بلوچستان ہاؤس کی از سر نو تعمیر اور اس میں موجود وزیر اعلیٰ اور گورنر کی رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش کے لیے ایک ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں جس کی ایک ایسے وقت میں کوئی تک نہیں بنتی جب ملک اور صوبے قرضے لے کر چلائے جا رہے ہیں۔
اس وقت بلوچستان کے پانچ ہزار سکولوں میں کوئی ٹائلٹ نہیں، ہزار سے زیادہ سکول بغیر چار دیواری کے ہیں، 60 سے 70 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں، پینے کا صاف پانی صرف 25 فیصد آبادی کو میسر ہے، گوادر جیسے ہم بین الاقوامی بندرگاہ بنانا چاہتے ہیں، جہاں گذشتہ دنوں بھی دہشت گرد حملہ ہوا وہاں سیف سٹی کیمرے تک موجود نہیں۔
ایسے میں ٹھیکیداروں کو کروڑوں کی ایڈوانس ادائیگی اور بلوچستان ہاؤس پر بلا ضرورت ڈیڑھ ارب خرچ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
صرف ایک سال میں کوئٹہ کے چھ ممبران صوبائی اسمبلی کو تقریباً 36 ارب کا فنڈ ملا لیکن کوئٹہ شہر کی حالت زار اور کچرے کے ڈھیر دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہاں 36 کروڑ بھی خرچ ہوئے۔
یہ تمام تفصیلات وزیر اعلیٰ بلوچستان کو نہ صرف معلوم ہیں بلکہ انہوں نے بریفنگز لینے کے بعد باقاعدہ چھانٹی کا آغاز بھی کر دیا ہے لیکن وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں موجود مضبوط مافیاز نے ان کے کام میں روڑے اٹکانا شروع کر دیے ہیں۔
سرفراز بگٹی کا دعویٰ ہے کہ جب تک وہ وزیراعلیٰ ہیں وہ کرپشن نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی کوئی نوکری پیسوں پر بکے گی لیکن شورش زدہ صوبے کی گورننس کو ٹریک پر لانا ان کے لیے یقیناً ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان اگر ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی کنٹریبیوشن ہو گی لیکن کرپشن اور بیڈ گورننس کے مسائل پر اگر وہ 20 فیصد بھی قابو پا لیتے ہیں تو انہیں ایک کامیاب وزیراعلی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
بہرحال ان تمام مسائل سے ہٹ کر ایک بڑا مسئلہ ملک سیاسی عدم استحکام کا بھی، اسی لیے سرفراز بگٹی سے یہ سوال لازمی تھا کہ کیا یہ کمپنی پانچ سال چلے گی، جس کا انہوں نے مسکراہٹ میں جواب دیا، ’یقیناً۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔