سلامتی کونسل میں امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو منظور ہونے دینا امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی کی علامت ہے۔
نہ صرف امریکہ نے پیر کو سلامتی کونسل میں ہونے والی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا بلکہ اس سے قبل اس نے خود ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں ’فوری اور دیرپا فائربندی‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پیر کے روز امریکہ نے پیش ہونے والی قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، جس میں غزہ میں رمضان کے بقیہ مہینے یعنی دو ہفتوں کے لیے ’فوری‘ جنگ بندی اور ’تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
برطانیہ، جو امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ملک ہے اور خارجہ پالیسی میں امریکہ کے شانہ بشانہ رہتا ہے، اس سمیت سلامتی کونسل کے 14 دیگر ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
یہ اکتوبر 2023 میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط جنگ کے بعد سے پہلا موقع ہے کہ امریکہ اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے زور دے رہا ہے۔
حالانکہ اس سے قبل امریکہ اسی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے بارے میں پیش ہونے والے تین قراردادیں ویٹو کر چکا ہے۔
اس کے جواب میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’افسوس کی بات ہے کہ امریکہ نے نئی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، جس میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے جو یرغمالیوں کی رہائی پر منحصر نہیں ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ’امریکہ کا اپنے موقف سے واضح انحراف ہے۔‘
امریکہ کی جانب سے قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کے فیصلے پر فوری ردِ عمل دکھاتے ہوئے نتن یاہو نے ایک اسرائیلی وفد کا امریکہ کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نتن یاہو کئی دن پہلے ہی دھمکی دے چکے تھے کہ امریکہ نے سلامتی کونسل میں اس کی حمایت نہ کی تو وہ اس دورے کو منسوخ کر دیں گے۔
اس دورے میں اسرائیلی اور امریکی حکام کو غزہ کے جنوبی شہر رفح میں اسرائیل کے مجوزہ حملے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ملاقات کرنی تھی۔ رفح وہ شہر ہے جہاں تقریباً 15 لاکھ فلسطینیوں نے غزہ کے دیگر علاقوں سے فرار ہو کر پناہ لے رکھی ہے۔
اسرائیل اور امریکی تعلقات میں حالیہ تناؤ کی بڑی وجہ اسرائیل کا غزہ کے جنوبی شہر رفح پر حملے کا منصوبہ ہے۔
اسرائیل نے غزہ کے دوسرے علاقوں کو پچھلے چھ ماہ کے دوران شدید بمباری کر کے بڑی حد تک تباہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ رہائش کے قابل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کے باسی رفح میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
لیکن اب رفح پر حملے سے ان لوگوں کو پاس کوئی اور ٹھکانہ نہیں بچے گا۔
امریکی نائب صدر کمالا ہیرس نے گذشتہ ہفتے ایک امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا، ’میں نے نقشے دیکھے ہیں، ان لوگوں کے پاس کہیں اور جان کی جگہ نہیں ہے۔‘
سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق صدر جو بائیڈن پر ان کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا دباؤ ہے کہ وہ اسرائیل کی فوجی امداد کو انسانی امداد کے ساتھ مشروط کر دے اور ایسے سفارتی اقدامات کرے جن سے ظاہر ہو کہ امریکہ اسرائیلی جارحیت کی حمایت نہیں کرتا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل پر زور دیں گے کہ وہ صرف حماس کی قیادت کے خلاف سرجیکل حملے کرے، نہ کہ بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں جن کی زد میں بےگناہ شہری آتے ہیں۔
تاہم نتن یاہو کا اصرار ہے کہ رفح کے اندر فوجی کارروائی ناگزیر ہے۔
انہوں نے گذشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ’ہمارے پاس رفح میں داخل ہوئے بغیر حماس کو شکست دینے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’مجھے امید ہے کہ ہم امریکی حمایت سے یہ کام کریں گے لیکن اگر ضرورت پڑی تو ہم اکیلے یہ کام کریں گے۔‘
اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے اسرائیل پر دباؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور انہوں نے سات مارچ کو اپنے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں بھی غزہ تک انسانی امداد پہنچانے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’اسرائیل کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ میں بےگناہ متاثرین کا تحفظ کرے۔‘
امریکہ تاریخی طور پر اسرائیل کا کٹر حامی رہا ہے اور وہ عشروں سے اسرائیل کو فوجی، مالی اور سفارتی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔
کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق اسرائیل کی آزادی کے بعد سے اب تک امریکہ اسے تین کھرب ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی حملے کے دوران بھی امریکہ نے اسے فوجی ساز و سامان کی فراہمی تیز کر دی تھی۔
ویٹو پاور
تاریخی طور پر امریکہ نے اقوام متحدہ میں اپنے ویٹو کے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی کل 89 قراردادوں میں سے 45 ایسی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے جن میں اسرائیل پر تنقید کی گئی تھی۔ ان ویٹو کردہ قراردادوں میں سے 33 کا تعلق فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے سے تھا۔
تاہم غزہ کے بگڑتے ہوئے انسانی بحران پر بین اقوامی تشویش کے بعد امریکہ میں بھی پالیسی تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔
امریکی انتخابات کا کردار
لیکن اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ اندرونی بھی ہے۔ امریکہ میں 30 سال سے کم عمر کے صرف 20 فیصد ووٹر صدر بائیڈن کی جانب سے اسرائیل کی پشت پناہی کی حمایت کرتے ہیں۔
اس تنازعے کے آغاز سے اب تک امریکہ میں رہنے والے عرب نژاد باشندوں کی جانب سے صدر بائیڈن کی حمایت میں 42 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
لیکن صرف صدر بائیڈن ہی نہیں، کئی دوسری نمایاں شخصیات اور اعلیٰ امریکی عہدے داروں نے بھی غزہ کے بحران کے معاملے پر اسرائیل کے نقطہ نظر پر سوال اٹھایا ہے۔
سابق صدر اور رپبلکن پارٹی کی طرف سے اس سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ روز ایک اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے غزہ میں ہر رات رہائشی عمارتوں پر بم گرتے دیکھے ہیں اور یہ ’بہت بڑی غلطی‘ ہے۔
’اسرائیل ہیوم‘ نامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہمیں امن کی طرف جانا ہو گا، یہ صورتِ حال تادیر جاری نہیں رہ سکتی۔ میں کہتا ہوں کہ اسرائیل کو بہت محتاط ہونا پڑے گا، کیوں کہ آپ دنیا کے بڑے حصے کی حمایت کھو رہے ہیں۔‘
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ وہ شخص ہیں جنہوں نے امریکی موقف کے برخلاف امریکہ سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا غیر مقبول فیصلہ کیا تھا، جو ان سے قبل کوئی امریکی صدر نہیں کر سکا تھا۔
اس کے علاوہ سینیٹ کے رہنما چک شومر، جو خود بھی یہودی ہیں، نے گذشتہ ماہ اسرائیلی قیادت پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کو ’امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ‘ قرار دیا تھا۔
یہ امریکی خارجہ پالیسی میں واضح نیا موڑ ہے۔
نتن یاہو کے پاس کم راستے بچے ہیں
صرف امریکہ نہیں، بلکہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کی پالیسیوں کو بھی ملک کے اندر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اسرائیل کے حزب اختلاف کے رہنما اور سابق وزیر اعظم یائر لاپید نے اسرائیلی وفد کے دورۂ امریکہ کی منسوخی کو ’غیر ضروری‘ اور ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا، ’یہ اسرائیل کے لیے برا اقدام ہے، سلامتی کے لیے برا ہے، معیشت کے لیے برا ہے۔‘
نتن یاہو کو کئی داخلی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ وہ ایک اتحادی حکومت کے سربراہ ہیں جس کے پاس معمولی اکثریت ہے۔ ایک طرف تو حکومتی اتحاد میں شامل کٹر دائیں بازو کے ارکان کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کا مطالبہ ہے تو دوسری نتن یاہو کو یرغمالیوں کے اہل خانہ کے سوالوں کا بھی سامنا ہے کہ جن کی رہائی کے لیے وہ بار بار احتجاج کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نتن یاہو غزہ کے معاملے پر کٹر رویہ اپنائے ہوئے ہیں لیکن غزہ میں جاری جنگ کے ہر گزرتے دن بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کی وجہ سے ان پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب اپنے سب سے بڑے عالمی پشت پناہ امریکہ کی حمایت کھو دینے کے بعد نتن یاہو کے پاس بہت کم راستے بچے ہیں۔
اگر انہوں نے امریکہ مخالفت کے باوجود رفح کے اندر کارروائی کی اور سلامتی کونسل کی قرارداد کے برعکس جنگ بندی نہ کی تو امریکہ اور اسرائیل کے درمیان خلیج بڑھتی چلی جائے گی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔