سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعرات کو ایک حکم نامے میں نو مئی کے واقعات پر فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف مقدمات کے فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی۔

چھ اپریل، 2022 کی اس تصویر میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر(تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کی سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک حکم نامے میں کہا ہے کہ فوجی عدالتیں نو مئی کو پیش آنے والے واقعات پر سویلینز (عام شہریوں) کے خلاف چلائے جانے والے مقدمات میں محفوظ فیصلے سنا سکتی ہیں تاہم یہ اجازت مشروط ہو گی۔

جمعرات کو فوجی عدالتوں میں سویلینز (عام شہریوں) کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے بعد عدالت نے کہا کہ صرف ان مقدمات کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہو سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل  منصور عثمان اعوان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ کم سزا والوں کو قانونی رعایتیں دی جائیں گی۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ’فیصلے سنانے کی اجازت اپیلوں پر حتمی فیصلے سے مشروط ہو گی۔‘

عدالت نے اٹارنی جنرل کو عملدرآمد رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانے کی بھی ہدایت کر دی۔

سماعت کے دورن اٹارنی جنرل نے کہا کہ نو مئی کے 15 سے 20 ملزمان کی رہائی کا امکان ہے لیکن اس کے بھی تین مراحل ہیں جو پورے کرنے پڑیں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جانا، دوسرا اس کی توثیق ہو گی اور تیسرا مرحلہ کم سزا پانے والوں کو آرمی چیف کی جانب سے رعایت دینا ہو گا۔‘

اس معاملے پر آئندہ سماعت اپریل کے تیسرے ہفتے میں ہو گی۔

گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ فوجی عدالتوں میں نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا ٹرائل مکمل ہو چکا ہے اور فیصلے مخفوظ ہیں لیکن سپریم کورٹ کے حکم امتناع کی وجہ سے ابھی سنائے نہیں گئے۔

سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا؟

سپریم کورٹ نے نو مئی کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے پر گرفتار عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ گذشتہ برس 23 اکتوبر کو سنایا تھا جس میں سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 59(4) بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔

سپریم کورٹ کے 1-4 کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی تحویل میں موجود تمام 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو گا، جب کہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

سویلین کے ٹرائل کی مشروط اجازت  

گذشتہ برس 17 نومبر کو وفاقی حکومت، وزارت دفاع، وزارت قانون اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمے نہ چلانے اور ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپیلوں میں موقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کا 23 اکتوبر کا فیصلہ آئین و قانون کے خلاف ہے لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

سپریم کورٹ نے 13 دسمبر کو فوجی عدالتوں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر مشروط فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جاری رہے گا لیکن فوجی عدالتیں اپیلوں کے فیصلے تک ٹرائل پر حتمی فیصلہ نہیں دیں گی۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے سماعت کی۔

چھ رکنی بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس محمد علی، جسٹس حسن اظہر، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل تھے۔

عدالتی فیصلہ پانچ ایک کی نسبت سے دیا گیا جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان