نو مئی ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل مکمل ہو چکا ہے: اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے پیر کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ تمام افراد کے خلاف مقدمات کی کارروائی تو مکمل ہو چکی ہے اور فیصلے مخفوظ ہیں ’لیکن سپریم کورٹ کے حکم امتناع کی وجہ سے ابھی فیصلے نہیں سنائے گئے۔‘

20 اکتوبر 2022 کی تصویر میں سپریم کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

فوجی عدالتوں میں سویلین (عام شہریوں) کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے پیر کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ ’فوجی عدالتوں میں نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا ٹرائل مکمل ہو چکا ہے اور فیصلے مخفوظ ہیں لیکن سپریم کورٹ کے حکم امتناع کی وجہ سے ابھی سنائے نہیں گئے۔‘

اپیلوں کی سماعت سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس امین الدین خان نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’کیا ملزمان میں کسی کی رہائی ہوئی ہے یا ہو سکتی ہے؟ کیونکہ آپ نے کہا تھا کچھ کیسز بریت کے ہیں، کچھ کی سزائیں مکمل ہوچکی ہیں۔‘

 اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ’کچھ ایسے ملزمان ہیں جن کی گرفتاری کا دورانیہ سزا میں تصور ہو گا، سپریم کورٹ کے حکم امتناع کی وجہ سے بریت کے فیصلے بھی نہیں ہو سکے۔‘

ملزمان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اس موقع پر کہا کہ ’بریت پر کوئی حکم امتناع نہیں تھا، جو ملزمان بری ہو سکتے ہیں ان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے۔‘

جسٹس امین الدین خان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’جو ملزمان بری ہو سکتے ہیں انہیں تو کریں باقی کی قانونی لڑائی چلتی رہے گی، اصل مقصد یہ ہے جو رہا ہو سکتے ہیں وہ تو ہو جائیں۔‘

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے فوجی عدالتوں میں محفوظ شدہ فیصلوں کی سمری طلب کر لی اور کہا کہ ’آگاہ کیا جائے کتنے ملزمان بری ہوسکتے ہیں اور کتنے نہیں۔‘

اٹارنی جنرل کو تمام تفصیلات 28 مارچ تک جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ’جن ملزمان کو کم سزائیں ہونا ہیں ان کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں، فوجی عدالتوں کے کیس میں حکم امتناع میں سمری کے مطابق ترمیم کی جائے گی۔‘

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

پیر کو سماعت شروع ہوئی تو سابق جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل نے ایک بار پھر بینچ پر اعتراض کر دیا کہ بینچ کو چھ رکنی کے بجائے نو رکنی لارجر بینچ ہونا چاہیے تھا۔

جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے کہا کہ ’اس کیس میں یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ فیصلے کا دارومدار بینچ کی تشکیل پر تھا، یہ سوال باقی نہیں رہنا چاہیے کہ نو رکنی بینچ ہوتا تو فیصلہ مختلف ہوتا، یہ اس ادارے پر عوام کے اعتبار کا معاملہ ہے، عدالت کمیٹی کو نو رکنی بینچ تشکیل دینے کا کہے۔‘

وکیل خواجہ احمد حسین نے مزید کہا کہ ’103ملزمان زیر حراست ہیں،ان کے اہل خانہ عدالتی کارروائی میں شامل ہونا چاہتے ہیں، عدالت اہل خانہ کو سماعت دیکھنے کی اجازت دے۔‘

جسٹس امین الدین نے کہا کہ ’کمرہ عدالت بھرا ہوا ہے انہیں کہاں بٹھائیں گے؟ عدالت آنے پر اعتراض نہیں، ان کا معاملہ دیکھ لیتے ہیں۔‘

رواں برس 29 جنوری کو ہونے والی سماعت میں بھی بینچ پر اعتراض کیا گیا تھا جس پر بینچ ٹوٹ گیا تھا اور سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا تھا کہ ’فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل رہے گا، تین رکنی ججز کمیٹی انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے لیے نیا لارجر بنچ تشکیل دے۔‘

خیبر پختونخواہ حکومت کا اپیل واپس لینے کا فیصلہ 

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل جب کالعدم قرار دیے گئے تھے وفاق سمیت صوبوں نے اپیلیں دائر کی تھیں۔ لیکن آج کی سماعت میں خیبر پختونخوا حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کر دی۔ صوبائی حکومت کے وکیل نے صوبائی کابینہ کی قرارداد عدالت میں پیش کی اور کہا کہ ’انٹرا کورٹ اپیلیں واپس لینا چاہتے ہیں۔‘

اس پر عدالت نے کہا کہ ’کابینہ قرارداد پر تو اپیلیں واپس نہیں کر سکتے، مناسب ہوگا کہ اپیلیں واپس لینے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کریں۔‘

سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا؟

سپریم کورٹ نے نو مئی کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے پر گرفتار عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ گزشتہ برس 23 اکتوبر کو سنایا تھا جس میں سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 59(4) بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔

سپریم کورٹ کے 1-4 کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی تحویل میں موجود تمام 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو گا، جب کہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

سویلین کے ٹرائل کی مشروط اجازت   

گذشتہ برس 17 نومبر کو وفاقی حکومت، وزارت دفاع، وزارت قانون اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمے نہ چلانے اور ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کیا تھا۔ اپیلوں میں موقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کا 23 اکتوبر کا فیصلہ آئین و قانون کے خلاف ہے لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

سپریم کورٹ نے 13 دسمبر کو فوجی عدالتوں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر مشروط فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جاری رہے گا لیکن فوجی عدالتیں اپیلوں کے فیصلے تک ٹرائل پر حتمی فیصلہ نہیں دیں گی۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چھ رکنی بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس محمد علی، جسٹس حسن اظہر، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل تھے۔ عدالتی فیصلہ پانچ ایک کی نسبت سے دیا گیا جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان