بلوچ نوجوان پانچ سالوں میں بہت محب وطن یا بہت باغی ہوں گے: جمال رئیسانی

پاکستان کے سب سے کم عمر رکن قومی اسمبلی نواب زادہ جمال خان رئیسانی کہتے ہیں کہ حکومت بلوچستان کو نوجوانوں کے مسائل پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

پاکستانی پارلیمان کے سب سے کم عمر رکن قومی اسمبلی نواب زادہ جمال خان رئیسانی کہتے ہیں کہ حکومت بلوچستان کو نوجوانوں کے مسائل پر خاص توجہ دینی چاہیے ورنہ وہ آئندہ پانچ سال میں یا تو انتہائی محب وطن یا انتہائی باغی ہوجائیں گے۔

25 سالہ جمال خان رئیسانی آٹھ فروری، 2024 کے عام انتخابات میں کوئٹہ کے حلقے این اے 246 سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے اپنے انتخاب، صوبے کی سیاست اور خاص طور پر بلوچستان کے نوجوانوں کے مسائل پر گفتگو کی۔

بقول جمال خان رئیسانی: ’بلوچستان ایک ایسے مرحلے پر آیا ہوا ہے کہ یا تو نوجوان زیادہ محب وطن بن جائیں گے ان پانچ سالوں میں یا پھر بہت باغی بن کر پہاڑوں کی طرف رخ کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے نوجوان بہت سارے مسائل کا شکار ہیں، یہاں بیشتر نوجوان پہلے تو تعلیم سے محروم رہتے ہیں اور اگر نوجوان کوشش کر کے تعلیم حاصل کر بھی لیں تو پھر ڈگری لے کر گھر میں بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ یہاں ’نوکریاں فروخت ہوتی ہیں۔‘

’میرے حلقے میں کچھ ایسے نوجوان ہیں جن کے پاس ماسٹرز ڈگری ہے۔ وہ میری طرف آتے ہیں کہ ہمیں نوکری دیں۔

’میں پوچھتا ہوں کہ کون سی نوکری؟ وہ کہتے ہیں کہ لیویز کی نوکری۔ کہاں لیویز کے سپاہی اور کہاں ماسٹرز ڈگری؟ یہ بات اس پر آ جاتی ہے کہ ہمیں شعور پر کام کرنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دورِ حکومت میں بلوچستان کے نوجوانوں میں بھی لیپ ٹاپ تقسیم کیے گئے، لیکن لیپ ٹاپ تقسیم کرنے والے یہ بھول گئے کہ صوبے کے اکثر علاقوں میں انٹرنیٹ ہی نہیں۔

بقول جمال خان رئیسانی: ’آپ چھوٹے مسائل کو چھوڑ کر بڑے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ یہ بھول رہے ہیں کہ لیپ ٹاپ دے رہے ہیں تو وہ کسی استعمال کا نہیں ہوگا۔ ’آپ کو چاہیے کہ پہلے انٹرنیٹ کا مسئلہ حل کریں اور پھر جائیں لیپ ٹاپ دیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’جب تک ہم چھوٹے مسئلے حل نہیں کرتے اور بڑے مسئلوں کے حل کی طرف چھلانگ لگاتے ہیں تو مجھے نہیں لگتا کہ ہم بلوچستان کا مسئلہ یا پاکستان کا کوئی مسئلہ حل کر پائیں گے۔‘

نواب زادہ جمال رئیسانی نے بتایا کہ انہیں قومی اسمبلی کا رکن بن کر بہت خوشی ہوئی۔’میری خوش قسمتی ہے کہ میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے سب سے کم عمر پارلیمنٹیرین کا اعزاز رکھتا ہوں۔

’میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ صرف میری جیت ہے بلکہ ہمارا جو نوجوانوں کا طبقہ ہے، اس کی جیت ہے کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ نوجوان اپنے فیصلے خود کریں، ان پر بحث مباحثہ کریں، ان پر اپنی رائے دیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے قومی اسمبلی میں سینیئر سیاست دانوں کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’قابل مذمت‘ قرار دیا۔

’اسمبلی فلور پر کوئی نسوار استعمال کر رہا ہے تو کوئی سگریٹ پی رہا ہے اور کوئی گالی دے کر نعرہ لگا رہا ہے۔ میں ہرگز ایسی سیاست نہیں کروں گا جس کی بنیاد بدتمیزی اور بدکرداری پر ہو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ وہ ’خدمت پر مبنی سیاست‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ ’میں یہ سیاست ہرگز نہیں اپناؤں گا، جس کی بنیاد بدتمیزی اور بدکرداری پر مشتمل ہو۔

’اگر ہم سیاست کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی حق کو جانتے ہیں تو ہم بردبارانہ سیاست کرسکتے ہیں اور اپنے ملک کے لیے مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہم منتخب ہو کر آتے ہیں۔ میرے خیال میں نعرے لگانے کے لیے ایوان میں نہیں بیٹھتے، ہم لوگوں کی خدمت کے لیے بیٹھتے ہیں۔‘

نواب زادہ جمال خان رئیسانی نے صوبے کے بڑھتے ہوئے مسائل کی جڑ ’کرپشن‘ کو قرار دیا اور کہا کہ ہر شعبے میں کرپشن ناسور کی طرح پھیل گیا ہے، جس کے لیے ’زیرو ٹالرنس‘ کی پالیسی اپنانی چاہیے۔

انہوں نے صوبے میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کی مخدوش صورت حال کے حوالے سے کہا کہ بلوچستان میں 14 ہزار سے زائد سکولوں میں سے چند فعال ہیں۔

’کچھ کی عمارتیں بھی نہیں اور کچھ ایسے سکول ہیں جو پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ بلوچستان حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مسائل کو حل کرے اور یقیناً صرف بلوچستان حکومت ان مسائل کو اکیلے حل نہیں کر سکتی۔

’ہمیں چاہیے ان مسائل کے حل کے لیے این جی اوز کو آن بورڈ لیں۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت سے بھی رجوع کرسکتے ہیں، جس نے اپنے صوبے میں دانش سکول کا جال بچھایا ہے جو ہمارے لیے بھی اچھا اقدام ہوگا۔‘

جمال خان رئیسانی نے بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے ’یوتھ پالیسی‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’انشا اللہ تعالیٰ جب یہ یوتھ پالیسی پاس ہوگی تو ہمارے نوجوانوں کو پتہ چلے گا کہ یہ پالیسی ہے اور اس کے تحت ہمیں کام کرنا ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل