احتجاج جمہوریت کا ایک اہم عنصر ہے مگر باقی چیزوں کی طرح ہم اس کے بارے میں بھی ابہام کا شکار ہیں۔ دنیا میں عوام احتجاج کرتی ہے جب جمہوری نظام ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے۔
فرانس میں پیلی جیکٹوں والے، ہانگ کانگ میں نوجوان، الجیریا میں نئے نظام کی تحریک اور سوڈان میں آمروں کے خلاف تحریکیں عوام نے چلائیں اور اس میں سیاسی پارٹیوں کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن پاکستان میں جو پارٹی حکومت میں ہو وہ بھی عوام کی گردن دباتی ہے اور جو پارٹی حکومت سے باہر ہو وہ بھی عوام کے کندھوں پر چڑھ کر اپنے لیے سیاسی طاقت لینا چاہتی ہے۔ پاکستان میں ہر دھرنا غیر جمہوری ہے اس لیے کہ اس میں جمہور کا کوئی مفاد نہیں ہے۔
مولانا فضل رحمان کے دھرنے پر بات کرنے سے پہلے اس سے پہلے ہونے والے دھرنوں پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ موجودہ دور کا پہلا دھرنا پی پی پی حکومت بننے کے بعد جج بحال کرنے کی تحریک تھی۔ سارے سیاستدان جو حکومت سے باہر تھے وہ اس کی حمایت میں نکلے۔ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی آرمی چیف نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے معاملہ رفع دفع کرا دیا۔
اگلا دھرنا 2013 میں مولانا طاہرالقادری نے دیا تھا۔ وہ اس دھرنے میں یہ مطالبہ لے کر آئے کے پورے نظام کو لپیٹ دیا جائے اور آنے والے الیکشن ملتوی کر دیے جائیں۔ کافی رونق لگی مگر آخر میں مولانا مان گئے اور الیکشن اپنے وقت پر ہوئے جس کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان نے الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کچھ مطالبات رکھے۔ جب وہ پورے نہ ہوئے تو دھوم دھام کے ساتھ دھرنا لے کر ڈی چوک پہنچ گئے۔ چودہ نوجوان اس لانگ مارچ اور دھرنے میں مختلف حادثات میں اپنی جان سے گئے۔ خوب رونق لگی اور لوگ پانچ سو ہوتے تھے مگر تمام چینل یہ تقریریں دکھانے پر مجبور تھے۔ دھرنے کے دوران جنرل راحیل شریف نے ثالثی کی پیشکش کی جس کے جواب میں خان صاحب خوشی خوشی پہنچے۔ مگر یہ دھرنا بھی اے پی ایس سکول دہشت گردی کے واقعے کے بعد لپیٹ دیا گیا۔
آخری دھرنا ٹی ایل پی نے دیا جو سیاسی انجینرنگ کے سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔ ایک دفعہ پھر خوب رونق لگی اور 1500 لوگوں نے اسلام آباد کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ دھرنا اس وقت اٹھا جب فوج نے ثالثی کا کردار ادا کیا اور ہر شریک کو ہزار روپے دے کر گھر بھیج دیا گیا۔
ان تمام دھرنوں میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ پہلی یہ کہ فوج ایک سیاسی کھلاڑی ہے اور تمام دوسرے کھلاڑی اسے اپنے سے زیادہ طاقتور تسلیم کرتے ہیں۔ اگر نہ کرتے ہوتے تو ہمیشہ کسی جنرل کی کال پر ڈھیر نہ ہو جاتے۔ دوسری یہ کہ ان تمام دھرنوں میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو اچھی طرح بدنام کیا، جمہوری اداروں کو کمزور کیا اور اسی لیے لوگوں کا اعتبار ان پر اٹھ چکا ہے۔ تیسرا یہ کہ عوام کو ان دھرنوں سے کچھ نہیں ملا بلکہ تکلیف ہی ملی۔ چوتھا یہ کہ ہر دھرنے کے بعد تمام کھلاڑی اس بات پر متفق ہوتے رہے کہ اس ملک کے وسائل پر کیسے مل بیٹھ کر اجارہ داری قائم رکھنی ہے۔ اور آخر میں خاص بات یہ کہ کسی ایک بھی دھرنے سے حکومت کو کوئی نہیں ہٹا سکا اور تمام دھرنے ناکام رہے سوائے پہلے دھرنے کے جس کا مقصد حکومت گرانا نہیں تھا بلکہ افتخار چودھری کو نوکری دلوانا تھا۔
مولانا فضل رحمان کا دھرنہ بھی ماضی کے دھرنوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ ایک دفعہ پھر عوام کے حصے میں تکلیف اور تمام سیاسی کھلاڑیوں کے حصے میں روٹی کا کچھ ٹکڑا آ جائے گا۔ مولانا کو میں نے کبھی انقلابی یا اصولی نہیں سمجھا۔ مگر اصل امتحان نواز شریف کا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ طاقت کی سیاست کریں گے یا ملک کو بدلنے کی۔
ایک انٹرویو میں مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ اصولی طور پر وہ کسی غیر آئینی عمل کی حمایت نہیں کریں گے۔ اس معاملے میں پاکستان کے تمام سیاسی اشرافیہ ایک پیج پر ہیں یہاں تک کہ فوج بھی۔ وہ بھی اب آئینی مارشل لاء پر قائل ہو چکے ہیں۔ جعلی دھرنے دراصل اصلی دھرنوں کا راستہ روکتے ہیں۔
اصلی دھرنا مولانا صاحب جیسے سیاستدان نہیں بلکہ عوام دیتے ہیں اور اس کے بعد ہی پاکستان میں صحیح اور طاقتور جمہوریت جنم لے گی۔ موجودہ جمہوریہ سیاسی اشرافیہ نے اپنے لیے بنائی ہے۔