وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نئے نصاب کی تیاری میں مصروف ہے جس کا بنیادی مقصد ایسے اچھے شہری تیار کرنا ہے جو حالات سے آگاہ ہوں، برداشت کا مادہ رکھتے ہوں اور ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال کرسکیں۔
یہ باتیں انہوں نے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ’باشعور شہری، پرامن پاکستان‘ کے عنوان سے جاری دو روزہ کانفرنس میں کیں۔ اس اجتماع میں ملک بھر سے ماہرین غلط معلومات کی ترسیل کو روکنے، سوشل میڈیا کے صحت مند استعمال اور شدت پسندی اور نفرت پر مبنی رائے کی حوصلہ شکنی کے لیے قومی لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔
وفاقی وزیر شفقت محمود نے افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ انہیں بھی 2018 کے عام انتخابات میں ایک سوشل میڈیا کمپنی کی خدمات حاصل کرنی پڑیں تاکہ انٹرنٹ پر منفی اور غلط مواد کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ان کا سوال تھا کہ سوشل میڈیا کی پولیسنگ انتہائی مشکل کام ہے۔ ’کون ہر ایک ٹوئیٹ کو چیک کرسکتا ہے۔ آپ کیسے ڈارک یا تاریک ویب کی نگرانی کرسکتے ہیں جہاں بم بنانے اور بندوق چلانے جیسے سب فارمولےموجود ہیں۔ یہ ناممکن ہے۔‘
تاہم ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن کی ڈگری رکھنے والے وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ کرنا ہوگا تاکہ ریاست مخالف اور بدامنی پھیلانے والے پروپیگینڈا کا مقابلہ کیا جاسکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کے تعلیم اور سائنس کے ادارے یونیسکو، اس کے ذیلی انفارمیشن فار آل پروگرام اور پاکستانی غیرسرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیوکریسی کے اشتراک سے اس طرح کی مزید کئی مشاورتی کانفرنسیں منیقد کی جائیں گی۔
’پاکستان کے پرتشدد انتہاپسندی کے چیلنج‘ کے عنوان سے ایک سیشن میں معروف اینکر منیزے جہانگیر نے شکایت کی کہ صحافیوں کو اب بھی سابق قبائلی علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے ایسے میں حالات کس نہج پر ہیں اس کا اندازہ کیسے ہوگا۔ انہوں نے تجویز دی کہ ’صحافیوں کو ان علاقوں میں رپورٹنگ کی اجازت دی جائے تاکہ سچ سامنے آسکے۔‘
نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی نے کہا کہ ماضی میں شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں ریاست سے غلطیاں ہوئیں لیکن وہ شاید جان بوجھ کر نہیں تھیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کے مینجنگ ایڈیٹر ہارون رشید نے ایک دوسرے سیشن میں معاشرے سے نفرتوں کے خاتمے پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم اپنی ذاتی، معاشرتی اور عالمی نفرتوں سے چھٹکارا نہیں پائیں گے اور اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر اور درست سمجھیں گے تو اتفاق رائے پیدا ہی نہیں ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ریاستی اداروں کے اندر شفافیت پر زور دیا تاکہ انہیں عوام کے مفاد کے تابے کیا جاسکے۔
کانفرنس میں ملک بھر کے 40 ماہرین مختلف سیشن میں اپنے رائے کا اظہار کیا ہے۔