پاکستان کی سیاسی و مذہبی تنظیم جماعت اسلامی پاکستان کے آئندہ پانچ سال کے لیے نئے امیر کے انتخاب کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور نام کا اعلان ہونا باقی ہے۔
تین ماہ کے عرصہ میں مختلف مراحل کے دوران جماعت اسلامی کی مجلس شوری کے تجویز کردہ تین امیدواروں کو ملک بھر سے جماعت کے اراکین نے اپنے ووٹ بیلٹ پر کاسٹ کر کے بھجوا دیے ہیں اور گنتی کے بعد تین اپریل کو نئے امیر کا اعلان ہوگا۔
جماعت اسلامی کی مجلس شوری کی جانب سے تجویز کردہ امیر کے لیے تین نام سامنے آئے ہیں جن میں موجودہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، جماعت کے نائب امیر لیاقت بلوچ اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن شامل ہیں۔
پارٹی کے دستور کے مطابق ملک بھر سے 46 ہزار اراکین جماعت خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے اپنے پسندیدہ رہنما کے حق میں رائے دے کر بزریعہ پوسٹ انتخابی کمیشن کو بھجوا چکے ہیں۔
ترجمان جماعت اسلامی قیصر شریف کے بقول ’اراکین کے بیلٹ پیپرز انتخابی کمیشن کو موصول ہونے کے بعد گنتی کا عمل جاری ہے۔ جب گنتی مکمل ہوجائے گی تو تین اپریل تک نئے امیر کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد نئے امیر جماعت اسلامی کی حلف برداری تقریب ہوگی اور مجلس شوری کا اجلاس بلایا جائے گا۔ جس میں نائب صدور، جنرل سیکریٹری و دیگر عہدیداروں کی نامزدگی امیر جماعت اسلامی مجلس شوری کی مشاورت سے کریں گے۔‘
جماعت اسلامی کے اس پارٹی نظام پر سیاسی و سماجی حلقوں میں تعریف بھی کی جاتی ہے اور کئی جمہوریت پسند اس پر سوالات بھی اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔
تجزیہ کار امتیاز عالم کے مطابق: ’جماعت اسلامی کا نظام نہ صرف تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں سے یکسر مختلف ہے بلکہ پاکستان کے جمہوری نظام اور آئین سے بھی مطابقت نہیں رکھتا کیوں کہ جماعت اسلامی کا رکن مذہبی بنیاد پر بنایا جاتا ہے اور وہی اراکین اپنا امیر چننے کا حق رکھتے ہیں۔
’امیر بننے والوں کو نہ تشہیر کا حق دیا جاتا ہے نہ ہی انہیں منشور پیش کرنے سے متعلق اجازت ہوتی ہے۔ نتائج کا اعلان بھی پورا عمل مکمل ہونے کے بعد کر دیا جاتا ہے حاصل کردہ ووٹ یا حمایت سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ یہ بالکل خلافت کی طرز کا نظام ہے جس طرح کئی صدیاں پہلے چلتا تھا یا افغانستان میں طالبان حکومت مجلس شوری کے ذریعے چل رہی ہے۔‘
جماعت اسلامی کے امیر کا انتخاب دیگر جماعتوں کے لیے مثال
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق: ’جماعت اسلامی کے تنظیمی امیر کا انتخاب دوسری جماعتوں کے لیے مثال ہے۔ اس میں شوری کے بعد اراکین کو اپنا امیر چننے کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ امیر کے لیے شرائط بھی اسلامی تعلیمات کا پاسدار ہونا لازمی ہوتا ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’شفاف طریقے سے اراکین جماعت اسلامی بغیر کسی دباؤ یا لالچ کے ہر بار امیر کا انتخاب کرتے ہیں۔ جس کی نگرانی بھی بااختیار انتخابی کمیشن کرتا ہے۔ جماعت اسلامی کا رکن بننے کی شرائط بھی سخت ہوتی ہیں اسی لیے جو جماعت سے کمٹمنٹ رکھے وہی ممبر بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کا امیر شروع سے اب تک مسلسل کوئی ایک شخص نہیں بلکہ یہ بدلتے رہتے ہیں یہی اصل جمہوری طریقہ ہوتا ہے۔‘
امیر جماعت اسلامی و دیگر عہدیداروں کے انتخاب کا طریقہ
مرکزی سیکریٹری اطلاعات جماعت اسلامی قیصر شریف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امیر جماعت اسلامی کا انتخاب ہر پانچ سال بعد ہوتا ہے اور اس کے لیے مجلس شوری کا نامزد کردہ انتخابی کمیشن پانچ سال پورے ہونے سے تین ماہ قبل کام شروع کردیتا ہے۔
’ملک بھر میں جماعت کے 46 ہزار سے زائد رجسٹرڈ اراکین ہیں۔ انتخاب سے چھ ماہ پہلے بننے والا رکن ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کرتا ہے۔‘
قیصر شریف کے بقول جماعت میں سب سے بااختیار مجلس شوریٰ ہوتی ہے جس کے اراکین کی تعداد 100 ہے جس میں 25 خواتین اراکین بھی شامل ہوتی ہیں۔
یہ شوری دستور جماعت اسلامی کے مطابق ملک بھر کو تقسیم کیے گئے مختلف شہروں پر مشتمل حلقوں سے ممبران کی رائے سے منتخب اراکین سے بنتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مجلس شوری کی مدت تین سال ہوتی ہے اس کے بعد نئے انتخاب سے وجود میں آنے والی نئی شوریٰ ہی نئے پارٹی عہدیداروں کا انتخاب کراتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مجلس شوری پانچ سال مکمل ہونے سے تین ماہ قبل انتخابی کمیشن تشکیل دیتی جس کا ایک صدر اور چار ممبران ہوتے ہیں۔ موجودہ انتخابی کمیشن کے صدر کراچی سے تعلق رکھنے والے راشد نسیم ہیں جو مرکزی نائب امیر بھی ہیں۔‘
قیصر شریف کے مطابق: ’انتخابی کمیشن بیلٹ پیپرز اور انتخابی دستاویزات کی چھپائی کراتا ہے۔ مجلس شوری میں کئی سینیئر اراکین کو امیر بنانے سے متعلق رائے لی جاتی ہے۔ جن تین سینیئر اراکین کو سب سے زیادہ حمایت حاصل ہوتی ہے ان کے نام حروف تہجی کے لحاظ سے بیلٹ پیپر پر چھپوا دیے جاتے ہیں۔
’کوئی بھی رکن اپنی خواہش پر امیدوار نہیں بن سکتا البتہ عام اراکین ان تین ناموں کے علاوہ بیلٹ پیپر پر کسی اور رکن کا نام لکھ کر رائے دے سکتے ہیں۔ مرکز سے صوبائی پھر ضلعی اور یو سی کونسل کی سطح پر رجسٹرڈ اراکین کے ناموں سے دو لفافوں میں بند بیلٹ پیپر ہر رکن کو بھجوا دیے جاتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہر رکن اندر والے لفافے میں موجود تین ناموں کا بیلٹ پیپر نکال کر اپنا ووٹ دیتا ہے اور باہر والے لفافے میں اسے ڈال کر اپنا رجسٹرڈ نمبر اور دستخط کرتا ہے۔ اسے بند کر کے ضلعی دفتر کو بھجوا دیتا ہے وہ صوبائی دفتر اور وہاں سے مرکز میں موجود انتخابی کمیشن کو یہ بیلٹ پیپر کے لفافے پہنچ جاتے ہیں۔‘
ترجمان جماعت اسلامی نے بتایا کہ بیلٹ پیپر کے ساتھ ایک پمفلٹ بھی بھجوایا جاتا ہے۔ جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ان تین ناموں میں سے جو ایماندار، نمازی، پرہیزگار، جان و مال اسلام کی راہ میں خرچ کرنے والا ہو اسے امیر جماعت اسلامی کا ووٹ دیا جائے۔
اس دوران کسی بھی رہنما کو نہ خود امیر بننے کی خواہش کا اظہار کرنے کی اجازت ہے نہ ہی وہ اپنی تشہیر کر سکتا ہے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ ’مجلس شوری کی جانب سے تجویز کردہ کسی بھی رہنما کو اعلان ہونے تک معلوم نہیں ہوتا کہ کون امیر منتخب ہوا ہے۔ البتہ انتخابی کمیشن کاسٹ ہونے والے ووٹ، حاصل کردہ ووٹ، مسترد شدہ ووٹ وغیرہ کی تفصیل خفیہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی رکن نتائج پر اعتراض کرے اور درخواست دے تو کمیشن شکایت سے متفق ہونے کی صورت میں یہ تفصیل اس ممبر کو دکھانے کا پابند ہوتا ہے۔
قیصر شریف نے کہا کہ ’مجلس شوری کی مشاورت سے مرکزی امیر صوبائی امیر ودیگر صوبائی عہدیداروں کی نامزدگی اس طرح کے انتخابی عمل کے بعد اپنی مرضی سے کر سکتا ہے۔
’اسی طرح ضلعی اور یونین کونسل کی سطح پر عہدیداروں کا انتخاب ہوتا ہے ضلعی انتخاب ہر سال، صوبائی انتخاب دو سال بعد ہوتا ہے۔ ایسا شفاف عمل کسی سیاسی جماعت میں موجود نہیں ہے اس عمل میں کوئی بھی نہ مداخلت کرسکتا ہے اور نہ جانبداری کا اہتمال ہے اسی لیے جماعت اسلامی سب سے مضبوط جماعت ہے۔‘
اس بارے میں بات کرتے ہوئے امتیاز عالم نے کہا کہ ’جماعت اسلامی کے اس نظام کو ہم اچھا یا برا نہیں کہ سکتے یہ ان کا اپنا نظام ہے۔ جو اسلامی طرز پر انہوں نے بنایا ہے جس طرح اسلام میں چند سو سال پہلے تک خلافت کا نظام تھا۔
’مجلس شوری کے ذریعے امیر بنایا جاتا تھا اور پھر سب اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے اپنا پارٹی نظام بنایا ہوا ہے۔ جہاں ہر کوئی انتخاب میں حصہ لینا تو دور کی بات شرائط پوری کیے بغیر رکن بھی نہیں بن سکتا۔‘
جمہوری ملک میں خلافتی طرز نظام کی کتنی گنجائش؟
امتیاز عالم کے بقول: ’اگرچہ دنیا میں نہ صرف اسلام میں بلکہ عیسائیت میں بھی چند سو سال پہلے تک خلافت یا مجلس شوری کے ذریعے ریاست کا نظام چلانے کا تصور موجود تھا۔ لیکن جب سے انقلاب فرانس کے بعد قومی ریاستوں کی تشکیل ہوئی اور جمہوری نظام کے ذریعے ریاستیں چلانے کا پارلیمانی نظام آیا۔ اس وقت ریاستوں میں جمہوری نظام قائم ہونے لگا۔ اگرچہ کئی ممالک میں اب بھی بادشاہت کا نظام موجود ہے۔ لیکن اکثر ریاستیں جمہوری، پارلیمانی نظام کے تحت ہی چلائے جا رہے ہیں۔‘
’تجزیہ کار امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ ’عالم اسلام میں بھی چند سو سال پہلے تک خلافت کا ہی نظام رائج تھا جو افغانستان میں اب بھی چل رہا ہے۔ مجلس شوریٰ کے ذریعے نظام سلطنت چلایا جاتا ہے اس پر کئی لوگ متفق بھی ہیں اور بیشتر اختلاف بھی کرتے ہیں۔‘
امتیاز عالم نے کہا کہ ’پاکستان میں بھی کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن یہاں نظام جمہوری ہی چل رہا ہے۔ مذہبی جماعتیں بھی موجود ہیں لیکن ان میں جماعت اسلامی واحد ہے جو صدیوں پرانے خلافت کے طرز پر عمل کر رہی ہے۔ البتہ وہ آئین پاکستان اور پارلیمانی نظام سیاست کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں دیگر مذہبی جماعتوں جمعیت علما وغیرہ میں نئے لوگوں کو پارٹی عہدے دے دیے جاتے ہیں۔‘
حیران کن بات یہ ہے ’جماعت اسلامی اپنے نظام پر مضبوطی سے قائم ہے لیکن جمہوری جماعت کوئی بھی ہو جمہوری نظام پارٹی میں بھی رائج نہیں کر سکی۔‘
قیصر شریف نے کہا کہ ’جماعت اسلامی کی مذہبی خدمات ہوں یا سیاسی فیصلے سارے مجلس شوری کرتی ہے۔ ہم اپنے اس پارٹی سسٹم پر خوش ہیں۔ اس نظام سے نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ ملکی سطح پر بھی باعمل اور باکردار شخصیات کو آگے لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ نظام کوئی بھی اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ چلانے والے لوگوں کے کردار پر اس کا انحصار ہوتا ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔