اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں جمعے کو ایک قرارداد پیش کی جانے والی ہے جس میں غزہ میں نسل کشی کے ممکنہ خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل پر اسلحے کی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس قرارداد کا مسودہ پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں اقوام متحدہ کے 56 رکن ممالک میں سے 55 کی جانب سے پیش کیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس متن کو پیش کرنے میں بولیویا، کیوبا اور جنیوا میں فلسطینی مشن بھی مشترکہ طور پر شریک ہیں۔
اگر قرارداد کا مسودہ منظور ہو جاتا ہے تو یہ پہلا موقع ہوگا جب اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا اعلیٰ ادارہ غزہ میں جاری جنگ کے بارے میں کوئی موقف اختیار کرے گا۔
متن میں غزہ کے آبادی والے علاقوں میں ’اسرائیل کی طرف سے وسیع پیمانے پر اثر انداز ہونے والے دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال‘ کی مذمت کی گئی ہے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’نسل کشی کو روکنے کے لیے اپنی قانونی ذمہ داری کو برقرار رکھا جائے۔‘
آٹھ صفحات پر مشتمل اس مسودے میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی علاقے پر اپنا قبضہ ختم کرے اور غزہ کی پٹی پر اپنی ’غیر قانونی ناکہ بندی‘ فوری طور پر ختم کرے۔
قرارداد کے مسودے میں ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہتھیاروں، دھماکہ خیز مواد اور دیگر فوجی سازوسامان کی فروخت یا منتقلی کو روکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر 25 مارچ کو غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کی تھی۔ سلامتی کونسل میں ہونے والی ووٹنگ میں امریکہ نے حصہ نہیں لیا تھا جبکہ دیگر 14 کونسل ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنے بیان میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’عالمی برادری غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے سکیورٹی کونسل کی قرارداد پر عمل درآمد یقینی بنائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’غزہ میں اسرائیل کی جانب سے دانستہ طور پر ہسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا جو انتہائی قابلِ مذمت ہے۔‘