غزہ میں انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی تنظیم کے قافلے پر اسرائیلی حملے میں سات کارکنوں کی اموات کے بعد جمعرات کو پہلی بار امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے درمیان ٹیلی فون پر بات ہوگی۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جو بائیڈن نے امریکہ میں قائم ورلڈ سینٹرل کچن کے ملازمین پر حملے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے، جو قحط کے دہانے پر موجود غزہ کے شہریوں میں انتہائی ضروری خوراک تقسیم کر رہے تھے۔
ایک امریکی عہدیدار نے بدھ کو اے ایف پی کو بتایا: ’میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ صدر بائیڈن اور وزیراعظم نتن یاہو کل بات کریں گے۔‘
اس فون کے متعلق معلومات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ اس مہلک حملے کے باعث ’برہم اور دل شکستہ‘ ہیں، جس میں ایک امریکی اور کینیڈین شہریت رکھنے والے شہری، تین برطانوی، ایک پولینڈ، ایک آسٹریلوی اور ایک فلسطینی شہری کی موت ہوئی۔
بائیڈن کی بڑھتی ہوئی تنقیدی زبان اور اسرائیل سے امدادی کارکنوں اور شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید کام کرنے کا مطالبہ اس حوالے سے بڑھتی ہوئی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل حماس کے ساتھ اپنے تنازعے کو کس طرح سنبھال رہا ہے۔
اسرائیل نے امدادی کارکنوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے ایک غلطی قرار دیا ہے اور وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے مسلح افواج کو ہدایت کی ہے کہ وہ ’امدادی کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کھلا اور شفاف رابطہ برقرار رکھیں۔‘
ورلڈ سینٹرل کچن کا کہنا ہے کہ اس نے اسرائیلی افواج کو اپنی نقل و حرکت کے بارے میں بتایا تھا۔ اس حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جس حملے میں ورلڈ سینٹرل کچن برانڈ کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا، وہ کوئی ’پہلا واقعہ‘ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک کوآرڈینیٹر کے مطابق غزہ میں تقریباً چھ ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت میں کم از کم 196 امدادی کارکن مارے جا چکے ہیں، جو ایک سال میں کسی بھی دوسرے تنازعے میں ہونے والی اموات سے تین گنا زیادہ ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ حملہ ’ایک بڑے مسئلے کی علامت اور اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ میں امداد کی تقسیم اتنی مشکل کیوں ہے۔‘
تاہم وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ بائیڈن اسرائیل کے ’اپنے دفاع کے حق‘ کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور امریکہ کے اہم اتحادی کو اسلحے کی فراہمی روکنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
پیر کو ہونے والی اموات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محفوظ طریقے سے ڈیلیوری کیسے جاری رکھی جائے کیونکہ غزہ کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہے اور مبینہ طور پر بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔
ورلڈ سینٹرل کچن، جس نے اس حملے کو ’ٹارگٹڈ‘ قرار دیا تھا، نے علاقے میں اپنی سرگرمیاں معطل کردی ہیں اور سینکڑوں ٹن غیر تقسیم شدہ سامان سے لدے بحری جہازوں کو بحیرہ روم کی بندرگاہ پر واپس بھیج دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد سے دیگر گروپوں نے بھی اپنی سرگرمیوں میں کمی کی ہے یا ان کا ازسرنو جائزہ لیا ہے۔ اقوام متحدہ نے منگل کو ’سکیورٹی کے معاملات کا جائزہ لینے‘ کے لیے رات کے وقت نقل و حرکت روک دی ہے۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی تنظیمیں اپنا کام محفوظ طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہیں۔‘
غزہ کی امدادی لائف لائن کے لیے خطرہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اس کے تمام 24 لاکھ افراد کو کافی مقدار میں خوراک حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے اور جلد ہی شمال میں قحط پڑنے کا خدشہ ہے۔
حالیہ جارحیت کا اغاز اس وقت ہوا جب سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیلی علاقوں پر حملوں کے نتیجے میں تقریباً 1،170 مارے گئے تھے، جس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر زمینی و فضائی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
حماس نے سات اکتوبر کو 250 سے زائد افراد کو قیدی بھی بنا لیا تھا اور غزہ میں 130 افراد اب بھی موجود ہیں جن میں سے 34 کے متعلق اسرائیلی فوج کا خیال ہے کہ وہ مارے جا چکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جارحیت میں کم از کم 33 ہزار افراد جان سے جاچکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل جمعے کو ایک قرارداد کے مسودے کا جائزہ لے گی جس میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس مسودے کو 18 ریاستوں کی حمایت حاصل ہے اور اسے 47 ممالک پر مشتمل کونسل میں اکثریت کے لیے 24 ووٹ درکار ہوں گے۔