پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ خیبر پختونخوا حکومت سمیت صوبے کی قوم پرست جماعتوں نے قومی اسمبلی میں ’گندھارا کوریڈور‘ بنانے کے لیے پیش کیے گئے بل کی شدید مخالفت کی ہے اور اسے صوبائی خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔
قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے ’گندھارا کوریڈور‘ بنانے کے لیے ایک مسودۂ قانون پیش کیا ہے اور ڈاکٹر رمیش کے مطابق کوریڈور بنانے کا مقصد بدھ مت کے ماننے والے ممالک کو پاکستان کے ساتھ جوڑنا ہے۔
بل میں لکھا گیا ہے کہ اس کا مقصد پاکستان کو بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے مذہبی سیاحت کا اور بین الاقوامی سطح پر گندھارا تہذیب کا گڑھ بنانا ہے۔
اسی بل کے مقاصد میں ایک بھی ہے کہ قومی سطح پر ایک اتھارٹی ہونی چاہیے تاکہ صوبوں اور متعلقہ اداروں کے مابین بین المذاہب ہم آہنگی اور گندھارا تہذیب کی اہمیت کی بارے میں بین الاقوامی سیاحوں کو آگاہ کیا جا سکے۔
پیش کیے گئے بل کے مطابق کوریڈور کا ایک چیئر پرسن ہو گا جو وزیر اعظم کی تجویز پر منتخب ہو گا جبکہ کوریڈور کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا جبکہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں علاقائی دفاتر بھی قائم کر سکیں گے۔
ڈاکٹر رمیش کمار کے مطابق، ’یہ کوریڈور ایک گیم چینجر ثابت ہو گا اور بل کا مقصد بدھ مت کے ماننے والے ممالک کو پاکستان کے ساتھ ملانا ہے جس سے ایشیائی ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بہتر ہوں گے جبکہ مذہبی سیاحت سے معیشت کو بھی فائدہ ہو گا۔‘
ڈاکٹر رمیش کے بل کے مقاصد میں لکھا ہے کہ بدھ مت کے آثار کی حامل ڈھائی ہزار سالہ قدیم گندھاری تہذیب پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود ہے۔
بل کے مطابق دنیا کی سات فیصد آبادی بدھ مت کی ہے اور سری لنکا، کیمبوڈیا، جاپان، کوریا، تھائی لینڈ، سنگاپور، بھوٹان، ویت نام، اور منگولیا میں بدھ مت کی آبادی موجود ہے۔
یاد رہے کہ بدھ مت کے گندھارا تہذیب کے زیادہ تر آثارِ قدیمہ خیبر پختونخوا میں موجود ہے اور صوبائی حکومت نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق علی امین گنڈاپور نے بتایا ہے کہ پاکستان کی گندھارا تہذیب کے 90 فیصد خیبر پختونخوا میں موجود ہے اور یہ بل ان آثار پر قبضے کی ایک سازش ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی امین گنڈاپور کے مطابق، ’اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد سیاحت اور آثار قدیمہ صوبائی محکمہ ہے اور ان آثار قدیمہ کے بارے میں قانون سازی بھی صوبائی اسمبلی کا حق ہے۔‘
بیان کے مطابق بل پیش کرنے والے رکن اسمبلی ڈاکٹر رمیش پہلے بھی گندھارا اتھارٹی ایکٹ 2023 کے نام سے اس طرح کا ایک منصوبہ پہلے بھی پیش کر چکے ہیں اور اب دوبارہ یہی کرنے جا رہے ہیں۔
علی امین کے مطابق ڈاکٹر رمیش سندھ میں ہڑپہ اور موئن جو دڑو کے حوالے سے بل کیوں نہیں لاتے اور ہم اس قسم کے ہتھ کنڈوں سے صوبے کے وسائل پر ڈاکہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔
صوبائی حکومت کے علاوہ صوبے میں حزب اختلاف کی جماعتیں بھی ایک پیج پر نظر آ رہی ہیں اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی جانب سے بھی اس بل کی شدید مخالفت کی گئی ہے۔
خادم حسین اے این پی کے کلچر ونگ کے سربراہ ہیں اور وہ اس بل کو آئین کے خلاف قرار دے رہے ہیں اور ان کے مطابق گندھارا تہذیب خیبر پختونخوا کی ملکیت ہے اور مرکز اس کو کبھی نہیں لے سکتا۔
انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے کونے کونے میں گندھارا تہذیب کے آثار موجود ہیں اور 18 ویں ترمیم کے بعد صوبے کو ان اثار کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے۔
خادم حسین نے بتایا، ’صوبائی اسمبلی کو اس بل کے خلاف قرار دار پاس کرنا چاہیے اور ہم بحیثیت سیاسی جماعت اس بل کو مسترد کرتے ہیں اور صوبے کے وسائل پر قبضہ برداشت نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’گندھارا تہذیب خیبر پختونخوا کی شناخت ہے اور یہ بل اس شناخت پر حملہ ہے اور مجھے لگتا ہے پہاڑوں اور دیگر وسائل پر قبضے کے بعد وفاق اب ہماری شناخت اور تہذیب پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔‘
خادم حسین کے مطابق صوبائی حکومت کو یہ مسئلہ کونسل آف کامن انٹرسٹ کے اجلاس بلا کر وہاں اٹھانا چاہیے کیونکہ اس صوبے میں گندھارا تہذیب اور مذہبی سیاحت کی فروغ کے لیے قانون سازی کا حق اس صوبے کو ہی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے بل کی مخالفت کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ڈاکٹر رمیش کے رابطہ کیا اور انہوں نے موقف بھیجنے کا بتایا، لیکن اس رپورٹ کے چھپنے تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔