انڈیا کے الیکشن میں سری لنکا کے چھوٹے جزیرے کی اہمیت کیا ہے؟

انڈیا نے 1974 میں اندرا گاندھی کی حکومت میں ایک سمندری معاہدے کے تحت جزیرہ سری لنکا کو سونپ دیا۔ اس وقت یہ ایک عملی فیصلہ تھا، لیکن خود مختار انڈین علاقے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی چھوڑنا اب مودی کی جماعت کے لیے ناقابل تصور ہے۔

20  مارچ 2012 کی اس تصویر میں انڈیا کے تیراک مرلی دھرن آبنائے پالک میں سری لنکا اور انڈیا کے بیچ موجود پانیوں میں تیراکی کرتے ہوئے (اے ایف پی/ STRDEL)

انڈیا میں انتخابی مہم کے دوران 50 سال پہلے کے واقعات پر ایک عجیب تنازع اہم مسئلہ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ ملک میں محض دو ہفتے بعد ووٹنگ کا آغاز ہونے والا ہے، انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 1974 میں ایک چھوٹا سا غیر آباد جزیرہ سری لنکا کے حوالے کرنے پر ملک کی اہم حزب اختلاف کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

بحر ہند میں واقع کچاتھیوو جزیرے کے علاقے میں بڑی تعداد میں مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔

جزیرے میں ایک کیتھولک گرجا گھر موجود ہے جہاں ہر سال مسیحی برادری آتی ہے۔ انڈیا اور سری لنکا دونوں ملکوں سے عقیدت مند یہاں آتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ جگہ غیر اہم ہے اور سیاسی جماعتوں کے لیے ایسے انتخابات لڑنے میں اس کے اہم ہونے کا امکان نہیں ہے، جو ایک ارب 40 کروڑ انڈین شہریوں کی زندگی کو متاثر کریں گے۔

انڈیا نے 1974 میں اندرا گاندھی حکومت کے دور میں ہونے والے سمندری معاہدے کے تحت یہ جزیرہ اپنے جنوبی ہمسایہ ملک کو سونپ دیا تھا۔ اس وقت یہ ایک عملی فیصلہ تھا، لیکن خود مختار انڈین علاقے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی چھوڑنا اب مودی کی دائیں بازو کی قوم پرست بنیاد کے لیے ناقابل تصور ہے۔

یہ مسئلہ جزوی طور پر دونوں ممالک کے ماہی گیروں کے درمیان جھڑپوں میں اضافے کی وجہ سے سامنے آیا۔

آبنائے پالک میں انڈیا سے 21 میل کے فاصلے پر واقع کچاتھیوو کے ارد گرد ماہی گیری کے مقامات سے، تاریخی طور پر انڈیا اور سری لنکا دونوں ملکوں کے ماہی گیر مچھلیاں پکڑتے رہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں، ماہی گیری کے حقوق پر اختلافات سے کشیدگی میں اضافہ ہوا اور سری لنکا کی بحریہ نے صرف گذشتہ سال 240 سے زیادہ انڈین ماہی گیروں کو گرفتار کیا۔

مودی اور ان کی پارٹی نے اخبار ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ پر توجہ مرکوز کی ہے، جس میں جزیرہ چھوڑنے کے کانگریس پارٹی کے فیصلے کے پس منظر کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

ریاست تمل ناڈو کے بی جے پی صدر کے انناملائی کے توسط سے حاصل کیے گئے سرکاری ریکارڈ میں انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو سے منسوب تبصرے شامل ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جزیرے کو اہمیت دینے پر تیار نہیں۔

رپورٹ میں مقامی دراودا منیترا کزگم (ڈی ایم کے) پارٹی کو بھی ملوث کیا گیا ہے، جو اب کانگریس کی اتحادی ہے اور کچاتھیوو کے قریب جنوبی ریاست تمل ناڈو پر اس کی حکومت قائم ہے۔

اخباری رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ 1974 میں ڈی ایم کے نے خفیہ طور پر کچاتھیوو کو سری لنکا کے حوالے کرنے کے معاہدے پر رضامندی ظاہر کی جب کہ اس نے عوامی سطح پر اس عمل کی مخالفت کی۔

اس صورت حال سے بی جے پی کو تمل ناڈو میں قومی اور علاقائی حزب اختلاف دونوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع مل گیا ہے۔ تمل ناڈو کو انتخابی میدانِ جنگ کی اہم ریاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

تمل ناڈو ان پہلی ریاستوں میں شامل ہے جہاں 19 اپریل سے شروع ہونے والے انڈیا کے سات مراحل پر مشتمل انتخابات میں ووٹنگ کا آغاز ہو گا۔

مودی نے اس ہفتے کے اوائل میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کیا کہ کچاتھیوو کو چھوڑنا ایک ’بے رحمانہ‘ فیصلہ تھا، جس نے ’ہمارے غریب ماہی گیر مردوں اور خواتین کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔‘

مودی نے کہا کہ ’بیان بازی کو چھوڑ کر ڈی ایم کے نے تمل ناڈو کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کچاتھیوو پر سامنے آنے والی نئی تفصیلات نے ڈی ایم کے کے دوہرے معیار کو مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے۔‘

مودی نے کہا کہ ’کانگریس اور ڈی ایم کے خاندانی اکائیاں ہیں۔ وہ صرف اس بات کی پروا کرتی ہیں کہ ان کے اپنے بیٹے اور بیٹیاں ترقی کریں۔ وہ کسی اور کی پروا نہیں کرتیں۔‘

مودی کے بیان کے بعد بی جے پی اور کانگریس کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی، جو پورے ہفتے جاری رہی۔

کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا: ’آپ اپنی حکومت کے 10 ویں سال اچانک علاقائی سالمیت اور قومی سلامتی کے مسائل لے کر کھڑے ہو گئے، شاید اس کی وجہ انتخابات ہیں۔ آپ کی مایوسی واضح ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مودی کو یاد دلایا کہ بی جے پی حکومت نے 2015 میں ہونے والے زمینی سرحدی معاہدے کے تحت ’دوستانہ اقدام‘ کے طور پر 111 علاقے بنگلہ دیش کو دے دیے۔

مودی کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کچاتھیوو معاہدے پر کانگریس اور ڈی ایم کے دونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ سری لنکا کو علاقے کی منتقلی کی وجہ سے کئی سال سے اس نے انڈین ماہی گیروں اور ماہی گیر کشتیوں کو ضبط اور ماہی گیروں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

انہوں نے پیر کو دارالحکومت دہلی میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ’گذشتہ پانچ سال میں کچاتھیوو اور ماہی گیروں کا مسئلہ پارلیمنٹ میں مختلف جماعتوں کی طرف سے بار بار اٹھایا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کانگریس اور ڈی ایم کے نے اس معاملے کو اس طرح دیکھا، جیسے ان کی اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں۔ اب ہم نہ صرف یہ جانتے ہیں کہ یہ کس نے کیا، بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اسے کس نے چھپایا۔‘

تمل ناڈو سے بی جے پی کے رہنما انناملائی نے اس سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ مودی حکومت اس علاقے کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ جے شنکر نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کیا انڈین حکومت جزیرے کو واپس لینے کا ارادہ رکھتی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔

سری لنکا نے اس معاملے کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور بنیادی ڈھانچے کے وزیر جیون تھونڈمان نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ کولمبو کو نئی دہلی سے کچاتھیوو معاملے پر کوئی پیغام موصول نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک سری لنکا کا تعلق ہے، کچاتھیوو جزیرہ اس کی لائن آف کنٹرول کے اندر ہے۔‘

ڈی ایم کے پارٹی کے ترجمان نے کہا: ’کسی مسئلے کی تاریخ کا مطالعہ کیے بغیر اس کے بارے میں بات کرنا غلط ہے۔ 1974 میں ڈی ایم کے نے کچاتھیوو کو سری لنکا کے حوالے کرنے کی مخالفت اور مذمت کرتے ہوئے پوری ریاست میں احتجاج اور جلسے کیے۔‘

ڈی ایم کے کے سرکردہ رہنما آر ایس بھارتی بھی بحث میں شامل ہو گئے اور کہا کہ اگر مودی کو واقعی کچاتھیوو کی پروا ہے تو وہ اپنے 10 سالہ دور اقتدار میں اس جزیرے پر دعویٰ کر سکتے تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’انہوں نے کچاتھیوو کا مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا؟‘

ڈی ایم کے کا کہنا ہے کہ گاندھی حکومت نے 1974 کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے اس کے نقطہ نظر پر غور کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے پارٹی نے اس وقت احتجاج کیا تھا۔

معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد 50 سال میں، تمل ناڈو کی ہر حکومت نے بار بار اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ماہی گیروں کے ذریعہ معاش، ساحلی برادریوں کے سماجی و اقتصادی استحکام اور خطے کی ثقافتی اور سماجی ساخت پر اس کے اثرات کو اجاگر کیا۔

تمل ناڈو کے ڈی ایم سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ ایم کے سٹالن نے بھی سری لنکا کے حکام کے ہاتھوں انڈین ماہی گیروں کی بڑھتی ہوئی گرفتاریوں اور کشتیوں کی ضبطگی کا مسئلہ اٹھایا ہے اور مودی پر زور دیا ہے کہ وہ سفارت کاری کے ذریعے اس معاملے سے نمٹیں۔

سری لنکا کے وزیراعظم رانیل وکرم سنگھے کے دورے سے قبل گذشتہ سال مودی کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا: ’تمل ماہی گیر ماہی گیری کے جن روایتی پانیوں پر نسلوں سے انحصار کرتے چلے آ رہے ہیں، مسلسل محدود ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان برادریوں کا اپنا ذریعہ معاش برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ (اور) ان برادریوں کی معاشی حالت متاثر ہو رہی ہے۔ اس سے علاقے کے ثقافتی اور سماجی تانے بانے کو بھی خطرہ ہے جو ماہی گیری کی صنعت کے گرد گھومتا ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا