لتیکا اور انکِت شادی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اس جوڑے کا ذاتی فیصلہ ہے جو تین سال سے زیادہ عرصے سے ایک دوسرے کو ڈیٹ کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں محبت کرنے والے لاکھوں نوجوانوں کی طرح انہیں محسوس ہوتا ہے کہ شادی ان کے تعلقات کی نوعیت کو تبدیل کرسکتی ہے۔
لتیکا اور انکت پارٹنرز کے طور پر ایک ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور پچھلے دو سال سے ایسا کر رہے ہیں۔
یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں خلاف معمول بات یہ ہے کہ اس ہفتے بننے والے قانون کی وجہ سے انہیں جیل میں ڈال دیا جا سکتا ہے جس کے بالآخر پورے انڈیا میں نافذ ہونے کا امکان ہے۔
اس قانون میں کہا گیا ہے کہ اکٹھے رہنے کے خواہش مند غیر شادی شدہ جوڑوں کو سرکاری سطح پر اپنے تعلقات کا اندراج کروانا ہوگا اور ایسا نہ کرنے والوں کو جرمانے اور تین ماہ تک قید کی سزائیں دینے کی دھمکی دی گئی ہے۔
ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے خوبصورت دامن میں، جہاں برطانوی راک بینڈ بیٹلز روحانی طاقت حاصل کرنے کے لیے آیا، اتراکھنڈ کی ریاستی حکومت پہلی ہے جو شادی، طلاق، وراثت، جائیداد کے حقوق اور سب سے زیادہ متنازع نام نہاد ’لیو ان‘ تعلقات (شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنا) سمیت لوگوں کی نجی زندگی کے بہت سے پہلوؤں سے متعلق متنازع قانون کا مسودہ تیار اور اسے منظور کرنے والی ہے۔
انڈیا کی آزادی کے بعد سے، اس طرح کے معاملات مختلف مذاہب کے ’پرسنل قوانین‘ کے دائرے میں آتے ہیں جس سے اس حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے کہ اس انتہائی متنوع ملک میں مختلف برادریاں بعض اوقات نمایاں طور پر مختلف رسم و رواج پر عمل کرتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان مرد (بیک وقت) ایک سے زیادہ بیویاں رکھ سکتے ہیں۔ جب کہ مثال کے طور پر ہندوؤں کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رواج غیر قانونی ہے۔
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت برسوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ ملک کے لیے ’یکساں سول کوڈ‘ (یو سی سی) بنانا چاہتی ہے۔
ناقدین کو خدشہ ہے کہ اس اقدام سے مسلمانوں جیسے اقلیتی گروہوں کے رسم و رواج پر عمل کی صورت میں جو سزا دی جائے گی وہ غیر متناسب ہو گی جب کہ یہ قانون ہندو برادری کے رسم رواج کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہو گا۔
ریاست اتراکھنڈ کے نئے یونیفارم سول کوڈ، جس کی منظوری بدھ کو ملک کی صدر نے دی، کے نفاذ کو اسی جیسے قانون کو پورے ملک کے لیے متعارف کروائے جانے سے پہلے بڑے پیمانے پر ایک آزمائش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
32 سالہ لتیکا حکومت کے اس موقف کو مسترد کرتی ہیں کہ نیا قانون ان جیسی خواتین کو فائدہ پہنچانے اور ایک ساتھ رہنے جیسے رواج کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس قانون کا مقصد ان لوگوں کو ہراساں کرنا ہے جو ذاتی انتخاب کرتے ہیں جس سے معاشرے کی تیوری پر بل پڑتا ہے۔
دی انڈپینڈنٹ سے بات میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں لیو ان تعلقات کو ممنوع سمجھا جاتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان تبدیلیوں سے پہلے بھی، غیر شادی شدہ جوڑے کے طور پر ایک ساتھ رہنے کے لیے رہائش تلاش کرنا ناممکن تھا۔
مکان مالکوں کی طرف سے متعدد بار مسترد کیے جانے کے بعد، لتیکا اور انکت تبھی کامیاب ہوئے جب انہوں نے اپنے آپ کو دور کے کزنز کے طور پر شناخت کروانا شروع کیا جو فلیٹ شیئر کرنا چاہتے ہیں۔
22 سالہ الوینا ایک اور نوجوان خاتون ہیں جنہوں نے ریاست اتراکھنڈ کے دارالحکومت دہرہ دون میں اس حوالے سے دی انڈپینڈنٹ کے ساتھ بات چیت کی کہ نئے قانون کا ان کی اور ان کے ساتھی کی زندگیوں پر کیا حقیقی اثر پڑ سکتا ہے۔
وہ ہمارے انٹرویو کے لیے دو گھنٹے کی تاخیر سے آئیں۔ وہ اپنے بوائے فرینڈ آرو کے ساتھ گھر پر تھیں، جب ان کا مکان مالک غیر متوقع طور پر وہاں پہنچ گئے۔ انہیں اپنے تعلقات کے بارے میں ناخوشگوار اور مداخلت کرنے والے سوالات سے بچنے کے لیے دوسرے کمرے میں چھپنا پڑا حتیٰ کہ مالک مکان وہاں سے رخصت ہو گئے۔
زیر نظر رپورٹ کے لیے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرنے والے تمام جوڑوں نے شناخت چھپانے کے لیے نام تبدیل کرنے کی درخواست کی جس سے انڈیا کے اس حصے میں لیو ان تعلقات کے معاملے کے بارے میں حساسیت ظاہر ہوتی ہے۔
الوینا کے بقول: ’یہاں ایسا ہی ہے۔ ہم اپنے گھروں کے اندر بھی نہیں مل سکتے۔ ہماری زندگی اب اور بھی تکلیف دہ ہونے والی ہے۔ (کیوں کہ نئے قوانین منظور ہو چکے ہیں۔)‘
نئے قانون کے تقاضوں کے تحت اکٹھے رہنے والے جوڑوں کو سرکاری اہلکار کے پاس جا کر اپنا اندراج کروانا ہوگا، جو 30 دن کے اندر ان کے تعلقات کے بارے میں سرسری چھان بین کرے گا اور ضرورت پڑنے پر اضافی معلومات یا ثبوت فراہم کرنے کے لیے انہیں طلب کر سکتا ہے۔
سرکاری اہلکار مختلف بنیادوں پر جوڑوں کی درخواست مسترد کرسکتا ہے یا ان کے والدین کو مطلع کرسکتا ہے، اس صورت میں کہ اگر ان میں سے کسی ایک پارٹنر کی عمر 21 سال سے کم ہو۔
کسی جوڑے کے الگ الگ ہونے کی صورت میں انہیں دوبارہ مقامی حکام سے رابطہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے تعلقات کے خاتمے کا اندراج کروا سکیں اور یہ ریکارڈ تھانے میں رکھا جائے گا۔
الوینا نامی مسلم خاتون، جن کے پارٹنر 20 سال سے زیادہ عمر کے ہندو نوجوان ہیں، کو خدشہ ہے کہ نئے قانون کی وجہ سے انہیں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ان رکشک گروپوں کے ہاتھوں ہراسانی کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا جو دو مذاہب سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کے درمیان تعلقات پر اعتراض کرتے ہیں۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’معاشرہ بہت قدامت پسند ہے اور کسی بھی قسم کے محبت کے رشتوں کو قبول نہیں کرتا اور اب ہم اس غیر معقول اور غیر ضروری قانون سے متاثر ہوئے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کے درمیان تعلقات، خاص طور پر ہندو اور مسلمان افراد کے درمیان تعلق، پہلے ہی ملک مذہبی محافظ گروپوں کے خطرناک حملوں کا نشانہ بن رہا ہے۔
انہوں نے وسیع پیمانے پر ریکارڈ پر موجود واقعات کا حوالہ دیا جن میں ’لو جہاد‘ کو روکنے کے لیے دائیں بازو کے گروہوں اور جوڑوں کو نشانہ بنایا۔
لو جہاد ایسی اصطلاح جو اس بے بنیاد سازشی نظریے کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کے مطابق مسلمان مرد ہندو خواتین کو اسلام قبول کروانے کے مقصد کے ساتھ ان کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں۔
دہرہ دون ایک ایسا شہر ہے جس کا ماضی میں پرنس آف ویلز اور اب شاہ چارلز سوم نے 2013 میں دورہ کیا۔
اس دورے کا مقصد ہمالیہ کے دامن میں کھاد کے استعمال کے بغیر کی جانے والی کھیتی کا مشاہدہ کرنا تھا۔
ریاست بھر میں زیادہ دور دراز اور چھوٹے پہاڑی قصبوں کے مقابلے میں دہرہ دون میں زیادہ ترقی اور زیادہ ترقی پسند طرز زندگی موجود ہے۔
یہ شہر بہتر تعلیم اور پہلی بار شہری زندگی کا تجربہ کرنے کی خواہش رکھنے والے نوجوانوں اور طلبہ کے لیے ایک مرکز بن کر ابھرا ہے۔
لیکن یہ شہر اب بھی غیر شادی شدہ جوڑوں کے درمیان پھلتے پھولتے تعلق کے لیے محفوظ جگہ فراہم کرنے میں انڈیا کے دیگر شہروں سے پیچھے ہے۔
دہلی یا ممبئی جیسے بڑے شہروں کے برعکس، یہاں نوجوان جوڑے شاذ و نادر ہی ہاتھ میں ہاتھ دیے نظر آتے ہیں، کیوں کہ رومانس کا سرعام مظاہرہ اب بھی ممنوع ہے اور شادی کے بغیر کسی مرد اور عورت کے درمیان کسی بھی تعلق کو عام طور پر ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
الوینا کہتی ہیں: ’یہ قانون کسی فرد کی پرائیویسی میں مداخلت ہے، اور (ایک ساتھ رہنے کے) ہمارے فیصلے پر جوابی حملہ ہے۔ ہمارا معاشرہ زیادہ قبولیت سے عاری ہے، اور مالک مکان اکیلی خواتین پر اعتراض کرتے ہیں، ان پر کئی شرائط عائد کرتے ہیں۔‘
لتیکا نے بات آگے بڑھائی کہ ’نئے قانون کا مقصد لوگوں کے رومانوی معاملات کی نگرانی کرنا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ (حکام) اب کسی بھی دن ہمارے دروازے پر دستک دیں گے، کیوں کہ انہوں نے ایک ہی گھر میں رہنے کو جرم قرار دے دیا ہے اور اسے قابل سزا عمل بنا دیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الوینا اور لتیکا دونوں کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ آگے چل کر کیا قدم اٹھانا ہے، لیکن حکام کے پاس اپنے تعلق کو رجسٹر کروانا ’کوئی آپشن نہیں ہے۔‘
لتیکا کے مطابق: ’ہمیں لگتا ہے کہ اس سے بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، جیسے کہ ہماری ذاتی زندگی میں مداخلت اور اخلاقی نگرانی۔
’ایسا نہیں کہ ہمارے ارادے خراب ہیں یا ہم اپنے تعلقات کے بارے میں سنجیدہ نہیں، بلکہ یہ ہمارا فیصلہ ہے، اور ہم شادی کی بجائے اس انتظام میں زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں، جہاں معاملات مختلف ہیں۔‘
نئے قانون پر تنقید دیگر حلقوں کی طرف سے بھی کی گئی ہے۔ نہ صرف نوجوان جوڑوں کی طرف سے جو براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ 60 سال سے زیادہ عمر کے اجے شرما دہرہ دون سے اوپر واقع مشہور تفریحی شہر مسوری جسے ملکہ کوہسار کہا جاتا ہے، میں تاریخی مقامات کی سیر کی قیادت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یکساں ضابطہ دیوانی ’مضحکہ خیز‘ ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا اصل مقصد دو مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان تعلق ختم کرنا ہے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ سے بات چیت میں کہا: ’اس ملک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اکثر لیو ان تعلقات کا سہارا لیتے ہیں اور اس صورت میں کہ جب خاندان بین المذاہب میل جول پر راضی نہیں ہوتے۔ یہ (قانون) ان بین المذاہب تعلقات کو ختم کرنے اور حکمران جماعت کے دیرینہ ایجنڈے پر عمل کا طریقہ ہے۔‘
چھوٹے سے قصبے چمولی سے شہر آنے والی پرنچل نونی کا کہنا ہے کہ یہ قانون لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی اور ’رجسٹریشن کے ذریعے نگرانی‘ کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
’یہاں کے لوگ اپنے والدین کو اپنے پارٹنر کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتے۔ وہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ہم حکام کو مطلع کر سکتے ہیں، جو صرف ہمیں نشانہ بنائیں گے؟‘
ہر کوئی اس قانون سازی کے خلاف نہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو حکومت کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس سے خواتین کو ایسے تعلق جس میں بدسلوکی موجود ہو اور مردانہ بالا دستی سے بچانے میں مدد ملے گی۔
دہرہ دون میں یونیورسٹی کے قریب واقع علاقے کرن پور کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ جب تعلقات کی بات آتی ہے تو یہ قانون مردوں اور خواتین دونوں کو ان کے اعمال پر زیادہ جوابدہ بنائے گا۔
شمال مشرقی ریاست منی پور سے تعلق رکھنے والی گولمی چم کہتی ہیں کہ ’استعمال کرو اور پھینک دو‘ کا تصور، جہاں مرد اپنی جسمانی ضروریات کے لیے عورتوں کا استعمال کرتے ہیں، اس قانون کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا، اور وہ جرائم کا ارتکاب نہیں کر سکیں گے۔
وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ نئے قانون کے تحت اگر کسی خاتون کو ’چھوڑ دیا‘ جائے تو اس صورت میں مرد پارٹنر کو اس کی ’دیکھ بھال‘ کا خرچہ اٹھانا ہو گا۔ نئے قواعد شادی شدہ جوڑے سے متعلق قوانین کی طرح ہیں۔
اس قانون کی بنیاد گھریلو تشدد ایکٹ 2005 پر ہے، جس میں ایسے جوڑوں کی درجہ بندی کی گئی ہے جو ’شادی شدہ لوگوں کی طرح‘ اکھٹے رہتے ہیں اور ’گھریلو تعلقات‘ کی اصطلاح کے تحت آتے ہیں۔
اس میں دیکھ بھال کے اخراجات برداشت کرنے کی دفعات شامل ہیں، لیکن صرف ان حالات میں جن میں کوئی خاتون گھریلو تشدد کی شکایت درج کروانے میں کامیاب رہتی ہیں۔
لیکن اتراکھنڈ سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حقوق کی کارکن کملا پنت نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ قانون صرف ایک ’سیاسی چال‘ ہے جس کا مقصد اقلیتوں کو نشانہ بنانا اور لوگوں کی ذاتی زندگی میں غیر ضروری مداخلت ہے۔
پنت کے مطابق: ’اس ملک میں تعلق بنانے والی لڑکیوں اور لڑکوں کو خاندان کی عزت کی خاطر قتل کر دیا جاتا ہے اگر ان کا تعلق مختلف مذاہب یا ذات کے ساتھ ہو۔ غلط فہمی پیدا کی جا رہی ہے کہ یہ قانون بہت ترقی پسند ہے اور لیو ان تعلقات کو قبول کرتا ہے لیکن یہ ان لوگوں کی ذاتی زندگی میں سراسر مداخلت ہے جو بالغ افراد کے طور پر ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔‘
پنت کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مرد اور عورت کو اپنی ذات اور مذہب کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے حکام کو اپنے بارے میں تفصیلات فراہم کرنی ہوں گی اور پھر پولیس کو مطلع کیا جائے گا ’اور وہ جوڑے جو روایتی معاشرتی اصولوں کے تحت قبول نہیں کیے جائیں گے، انہیں نشانہ بنایا جائے گا، اور (اس کے) لوگوں کے لیے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
’اس طرح ایک بار قانونی ڈیٹا بیس میں آ جانے کے بعد خاندان اور معاشرہ جو شادی سے پہلے جسمانی تعلق کو قبول کرنے پر تیار نہیں، لڑکیوں کو نکال باہر کریں گے۔ یہ قانون کسی بھی طرح خواتین کے حق میں بالکل نہیں ہے اور لوگوں کی ذاتی زندگیوں کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔‘
© The Independent