پنجاب کے محکمہ داخلہ نے ہفتے کو لاہور ہائی کورٹ میں جمع ایک رپورٹ میں بتایا کہ راول پنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی حفاظت پر ماہانہ 12 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
تحریک انصاف لائرز ونگ کے افضل عظیم نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد کی عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں نہ سابق وزیر اعظم کو قانون کے مطابق ملنے والی سہولیات دی جا رہی ہیں نہ ہی سکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے۔
درخواست میں ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ صوبائی حکومت کو قانون کے مطابق عمران خان کو سکیورٹی اور سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کا حکم دیا جائے۔
عدالت نے اس معاملے پر حکومت سے رپورٹ طلب کر رکھی تھی، جسے آج ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے جمع کرا دیا۔
عدالت نے عمران خان کو جیل میں دی جانے والی سہولیات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان کو سابق وزیر اعظم کے طور پر ملنے والی سکیورٹی اور سہولیات برقرار رکھنے کی ہدایت کی اور کیس کی سماعت 16اپریل تک ملتوی کر دی۔
محکمہ داخلہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عمران خان کو سات سیلز پر مشتمل سیکورٹی وارڈ میں رکھا گیا ہے۔ ان سات میں سے دو سیل ان کے زیر استعمال ہیں جبکہ باقی پانچ سیل سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بند رکھے گئے ہیں۔
عمران خان ان بند سیلز کے صحن کو چہل قدمی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کسی غیر متعلقہ شخص کو عمران خان کے سیلز تک جانے کی اجازت نہیں۔ ان کے زیر استعمال سیلز کی حفاظت کے لیے تربیت یافتہ اہلکار تعینات ہیں۔
معمول کے مطابق اڈیالہ جیل میں 10 قیدیوں پر ایک اہلکار تعینات ہے جبکہ عمران خان کے لیے 15 اہلکار تعینات ہیں جن میں دو سیکورٹی افسران بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ عمران خان کی سیکورٹی پر ماہانہ 12 لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے جبکہ ان کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے لگائے گئے کیمروں پر پانچ لاکھ روپے خرچ آئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ عمران خان کے کھانے کے لیے خصوصی قواعد و ضوابط تشکیل دیے گئے ہیں۔ انہیں مکمل صحت افزا کھانا مہیا کیا جاتا ہے جو ایک خصوصی کچن میں بنتا ہے۔
ان کا کھانا اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ جیل کی نگرانی میں تیار کیا جاتا ہے اور کھانا فراہم کرنے سے قبل ایک میڈیکل افسر یا ڈپٹی سپرٹینڈنٹ جیل اسے چیک کرتا ہے۔
جیل کے میڈیکل افسر کے علاوہ، راول پنڈی کے ایک ہسپتال کے چھ میڈیکل افسر تعینات ہیں۔ راول پنڈی کے ایک دوسرے ہسپتال کی خصوصی ٹیم جیل کا ہفتہ وار دورہ کرتی ہے، جو ضرورت پڑنے پر ان کا باقاعدگی سے معائنہ بھی کرتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ عمران خان کو جیل میں ورزش کے لیے مشین اور دیگر اشیا فراہم کی گئی ہیں۔ ان سے ملاقات کے لیے قوائد و ضوابط موجود ہیں جبکہ ان کے جیل ٹرائل کے دوران بھی ایک جامع سیکورٹی پلان پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ اڈیالہ جیل کی حفاظت کے لیے پولیس، رینجرز سمیت مختلف محکموں نے فرضی مشقیں بھی کیں۔ اڈیالہ جیل کی جانب جانے والے روڈ پر پولیس کی اضافی نفری تعینات ہے۔ جیل کے ارد گرد رینجرز اور ایلیٹ فورس کے اہلکار مسلسل گشت کرتے ہیں۔
’رپورٹ مفروضوں پر مشتمل ہے‘
عمران خان کو سکیورٹی اور سہولیات کی فراہمی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے والے انصاف لائر ونگ کے رہنما افضل عظیم نے کہا کہ ’ہمارے عمران خان کی سکیورٹی سے متعلق سنجیدہ خدشات ہیں۔ انہیں سابق وزیر اعظم کے طور پر سکیورٹی اور سہولیات سے متعلق جو حکومت نے رپورٹ پیش کی وہ مفروضوں پر مشتمل ہے کیونکہ انہیں نہ ملاقات کی آزادانہ سہولت دی جا رہی ہے اور نہ ہی انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے۔‘
’کھانے کے مضر صحت ہونے کی شکایات ہیں۔ انہیں گھر سے کھانا منگوانے کی اجازت نہیں۔ طبی سہولیات کا صرف دعوی کیا جا رہا ہے، عمران خان کے ذاتی معالجین کو معائنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی۔ ان پر قاتلانہ حملے میں ٹانگ پر لگنے والی چوٹ کا علاج بھی تسلی بخش نہیں ہو رہا۔‘
انہوں نے عمران خان کو ملنے والی سکیورٹی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’رپورٹ میں جو دعوے کیے گئے وہ سکیورٹی انتظامات تو جیلوں میں عام طور پر ہوتے ہیں۔ حکومت نے خود بتایا کہ اڈیالہ جیل کے قریب سے دہشت گرد گرفتار ہوئے اس کا مطلب عمران خان جیل میں محفوظ نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کی ہے کہ جیل کا اپنے طور پر معائنہ کرایا جائے تو حقیقت سامنے آجائے گی۔‘
چیف جسٹس ملک شہزاد احمد نے آج درخواست کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل خالد اسحاق کے دلائل پر استفسار کیا کہ ’عمران خان سابق وزیر اعظم اور سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں ان پر قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے، اس حوالے سے سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کتنے تسلی بخش ہیں؟‘
اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان کو قانون کے مطابق سابق وزیر اعظم کو ملنے والی سہولیات اور سکیورٹی انتظامات کے مقابلہ میں زیادہ سہولیات اور سکیورٹی حاصل ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اسی حوالے سے ایک درخواست بشری بی بی نے اسلام آباد میں بھی دائرکر رکھی ہے جس کی سماعت جاری ہے لہٰذا دونوں درخواستوں کو ایک جگہ سنا جائے۔
عدالت نے بشری بی بی کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے قرار دیا کہ اگر وہ درخواست بھی اسی معاملے سے متعلق ہے تو پھر درخواست گزار بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔