اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو نے غزہ پر جارحیت کے آغاز میں ہی فتح کے لیے ایک مشکل ہدف مقرر کیا اور وہ تھا: حماس کی مکمل تباہی اور تقریباً 250 قیدیوں کی رہائی۔
انہوں نے ان مقاصد کے حصول پر کئی بار زور دیا ہے۔ جنوری میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا:
’ایسے لوگ ہیں جو دعوی کرتے ہیں کہ فتح ناممکن ہے۔ میں اس بات کو یکسر مسترد کرتا ہوں۔ میری قیادت میں اسرائیل حماس پر مکمل فتح سے کم پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔‘
دی کنورشیشنٹ ویب سائٹ کے مطابق اسرائیل چھ ماہ سے جاری جارحیت کے باوجود ان اہداف سے بہت دور ہے۔ اسرائیلی افواج (آئی ڈی ایف) کو غزہ میں عمارتوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں شہری مارے گئے اور رہائشیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن علاقے پر ان کی گرفت اب بھی کمزور دکھائی دیتی ہے۔
مثال کے طور پر اسرائیلی صحافی انشیل فیفر نے رواں ہفتے سنڈے ٹائمز میں لکھا ہے کہ جب وہ حال ہی میں آئی ڈی ایف یونٹ سے وابستہ تھے تو انہوں نے الشفا ہسپتال کے کھنڈرات میں حماس کے سنائپرز دیکھے تھے۔
اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا مقصد بھی اب بھی بہت دور دکھائی دیتا ہے۔ نومبر میں ہونے والی مختصر جنگ بندی کے بعد مزید قیدیوں کی رہائی کی امید کی جا رہی تھی، نومبر میں عارضی جنگ کے دوران 240 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 105 اسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ ہوا تھا۔
لیکن اسرائیلی فوجی کارروائی کے سبب صرف تین اسرائیلی قیدیوں کو رہا کروایا جا سکا، خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً 100 قیدی اب بھی غزہ میں موجود ہیں اور زندہ ہیں۔
ان خراب نتائج کے باوجود نتن یاہو کا کہنا ہے کہ حماس پر صرف فوجی دباؤ ہی قیدیوں کی رہائی کا باعث بنے گا۔ نتن یاہو کو، جو اسرائیل کی تاریخ کی سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومت کی قیادت کر رہے ہیں، اس اعتماد میں اپنی کابینہ کی حمایت حاصل ہے۔
کابینہ کے کچھ انتہائی دائیں بازو کے ارکان نے دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے اس ہدف سے دستبرداری اختیار نہ کی تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے جس سے ان کی حکومت گر جائے گی۔ ایسے میں نئے انتخابات کی ضرورت ہوگی۔ ان انتخابات میں نتن یاہو یقینی طور پر کافی فرق سے ہار جائیں گے۔
تاہم حماس کی فوجی شکست پر نتن یاہو کے زور نے بہت سے اسرائیلیوں میں یہ سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا فوجی مہم پر توجہ مرکوز کرنے سے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں کوششوں میں کمی آ گئی ہے۔
جنوری کے وسط میں عبرانی یونیورسٹی کی جانب سے رائے عامہ کے ایک جائزے سے پتہ چلا کہ سروے میں شامل تقریبا آدھے افراد کا کہنا تھا کہ اصل ترجیح یرغمالیوں کو دی جانا چاہیے۔ حالیہ ہفتوں میں تل ابیب اور بیت المقدس میں نتن یاہو کے جنگ کے انتظام کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تناسب اب مزید بڑھ سکتا ہے۔
کیا حماس 'جیت' رہی ہے؟
نتن یاہو کی حکومت کے برعکس حماس کی قیادت نے عوامی سطح پر کوئی ایسا معیار مقرر نہیں کیا ہے جس کے ذریعے وہ فتح کو ناپ سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسا لگتا ہے کہ حماس کو یقین ہے کہ اسے برتری حاصل ہے۔ نومبر میں عارضی جنگ بندی کے بعد سے حماس نے قیدیوں کے تبادلے کے نئے معاہدے کے اپنے مطالبات کو سخت کر دیا ہے جس میں غزہ سے اسرائیل کا مکمل انخلا اور مستقل جنگ بندی شامل ہے۔
حماس اچھی طرح جانتی ہے کہ جنگ کے دوران اسرائیل نے خاص طور پر امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کے علاوہ مغرب میں دیگر روایتی حامیوں کی بین الاقوامی حمایت کافی کھو دی ہے۔ گذشتہ ہفتے آئی ڈی ایف کی جانب سے ورلڈ سینٹرل کچن نامی خیراتی ادارے کے سات امدادی کارکنوں کے قتل نے بین الاقوامی غم و غصے میں مزید اضافہ کیا ہے۔
امدادی کارکنوں کی ہلاکتوں کے بعد بائیڈن نے نتن یاہو کے ساتھ سفارتی طور پر ’براہ راست‘ (یعنی ناراض) فون کال کی، جس کے دوران انہوں نے غزہ میں مجموعی انسانی صورت حال کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ شہریوں کو پہنچنے والے نقصانات سے نمٹنے اور تمام امدادی کارکنوں کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔
اس کے بعد بائیڈن نے دھمکی دی کہ اگر نتن یاہو فوری کارروائی کرنے میں ناکام رہے تو وہ غزہ کے حوالے سے امریکی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیں گے۔
نتن یاہو اپنے اقتدار کے دوران امریکی صدور کا سامنا کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، لیکن بائیڈن کا پیغام یقینی طور پر انہوں نے سنا۔ انہوں نے فوراً کابینہ کا اجلاس طلب کیا جس میں غزہ میں تین امدادی راستے کھولنے کی منظوری دی گئی۔
لیکن کیا یہ واقعی اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کا ایک اہم موڑ تھا؟ امریکہ پہلے ہی اسرائیل کے لیے اپنی سفارتی حمایت کم کر چکا ہے اور گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پر عمل درآمد میں حصہ نہیں لے سکا تھا۔
اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ قدم اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں کمی کرنا یا اس پر شرائط عائد کرنا ہو گا۔ تاہم اس مرحلے پر اس طرح کے اقدام کا امکان نہیں ہے۔ یہ اسرائیل کے بارے میں طویل عرصے سے جاری دو طرفہ امریکی پالیسی کے منافی ہو گا، جو یہودی ریاست کے قیام کے بعد سے عملی طور پر ایک ایسے خطے میں جہاں یہ دشمنوں سے گھرا ہوا ہے اس کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل کے موجودہ سکیورٹی ماحول میں فوجی امداد پر امریکی پابندیوں کا امکان اور بھی کم ہے کیونکہ انہیں نہ صرف حماس بلکہ لبنان میں حذب اللہ، یمن میں حوثی باغیوں اور عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں سے بھی خطرات کا سامنا ہے۔ گذشتہ ہفتے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے بھی اسرائیل کے خلاف دھمکیاں دی ہیں۔
کیا تعطل کو ختم کیا جا سکتا ہے؟
نتن یاہو کا مسئلہ تاہم یہ ہے کہ بائیڈن نے اب جنگ جاری رکھنے کی اسرائیل کی آزادی کو محدود کر دیا ہے۔ جنوبی غزہ کے علاقے رفح پر حملہ کرنے سے بڑی تعداد میں شہری ہلاکتیں ہوں گی اور مزید امریکی غصے کا سامنا کرنا پڑے گا، لہذا اسرائیل کے فی الحال آگے نہ بڑھنے کا امکان ہے۔
امریکہ اور اسرائیل دونوں کو امید ہے کہ اس ہفتے مصر میں دوبارہ شروع ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ مصری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ معاہدے پر پیش رفت ہوئی ہے، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا فریقین اختلاف کے سب سے متنازع نکات پر سمجھوتہ کر پاتے ہیں یا نہیں۔
بائیڈن کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کے پاس حماس سے نمٹنے کے لیے نتن ہاہو کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔
بائیڈن کی نتن یاہو کو دھمکی شہری ہلاکتوں کو کم کرنے اور غزہ میں مزید امداد داخل ہونے کی اجازت دینے پر زور تو دیا لیکن یہ نہیں کہا کہ غزہ میں حماس کو تباہ کرنے کے ہدف کو ترک کر دینا چاہیے۔
علاقے میں سیاسی تصفیے کے لیے بائیڈن کا منصوبہ یہ ہے کہ حماس کی شکست کے بعد مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو بحال کیا جائے اور غزہ کا انتظام سنبھالا جائے۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی کی فلسطینیوں اور اسرائیلیوں میں ساکھ بہت خراب ہے تو یہ ہدف کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے یہ بالکل واضح نہیں ہے۔
ایسے میں حماس کا وجود برقرار ہے اور وہ فی الحال کہیں نہیں جا رہی ہے۔