جب پاکستانی معاشرے میں بدعنوانی کا ذکر کیا جاتا ہے تو عموماً اس میں نجی سرمائے کے کردار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی دوسرے ممالک کی طرح جیسے جیسے نجی سرمائے کی طاقت بڑھی ہے، ویسے ویسے کرپشن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
بدعنوانی کا یہ معاملہ صرف سرمایہ دار طبقے یا سیاست دانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ طاقتور ریاستی اداروں نے بھی سیاسی منظر نامے کو بدلنے کے لیے کرپشن کو فروغ دیا اور ایسے سیاسی اتحاد بنائے جو ان کے منظور نظر تھے اور جن کا مقصد بنیادی طور پہ ایسے حکمرانوں کو اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنا تھا جو ان کے لیے پریشان کن تھے۔
مثال کے طور پر بےنظیر بھٹو کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا، جس میں بے دریغ طریقے سے پیسے کا استعمال کیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے جن صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا تھا جنرل ضیا نے ان کی واپسی کا عمل شروع کیا اور معاشی طور پر لبرل پالیسیز بنائیں جنہوں نے آگے جا کے نجکاری کا راستہ ہموار کیا۔
اس سے سرکاری اداروں میں نجی شعبے سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں اور ٹھیکیداروں کا عمل دخل بھی بڑھ گیا۔ جنرل ضیا کے دور سے پہلے بڑے پیمانے پہ تعمیر و ترقی کا کام سرکاری ادارے کیا کرتے تھے۔
عموماً بہت سارے معاملات میں سرکار ہی کسی پروجیکٹ کا خاکہ لے کر آتی تھی، سرکاری ادارے ہی اس کے لیے خام مواد فراہم کرتے تھے اور سرکاری ادارے ہی اس کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے تھے۔
جنرل ضیا کے دور اور اس کے بعد میں جب ٹھیکوں کا سلسلہ شروع ہوا، تو مختلف نجی کمپنیوں کو ٹھیکے دینے کے عوض رشوت وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
آج بھی کئی سیاست دانوں پر الزام ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں کمپنی کو ٹھیکہ قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے دیا۔ معاشرتی طور پر ہمیں نظر آتا ہے کہ ٹھیکے دینے والے سیاست دانوں اور ٹھیکے داروں دونوں نے ہی دن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔
جنرل ضیا کے دور سے پہلے تعلیمی ادارے بڑے پیمانے پہ سرکار کے اختیار میں ہوتے تھے۔ اگر کسی طالب علم کو ڈاکٹر بننا ہوتا تھا تو وہ چار سال میں چند ہزار روپے دے کے ڈاکٹر بن جاتا تھا اور اس کو یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ اس نے کروڑوں روپیہ میڈیکل کی تعلیم پر خرچ کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج اگر ایک میڈیکل کا طالب علم نجی میڈیکل کالجز کو ایک کروڑ سے ایک کروڑ 60 لاکھ کے قریب فیس اور دیگر اخراجات کی مد میں ادا کرے گا، تو وہ اپنی تعلیم پہ خرچ کیے پیسوں کی ریکوری کیسے کرے گا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آج کا انجینیئر جب کسی نجی انجینئرنگ کالج سے لاکھوں روپے دے کر انجینیئر بنے گا، تو ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس کی پہلی ترجیح کمانا ہو گی اور وہ ممکنہ طور پر کسی بھی پروجیکٹ میں غیر معیاری غیر معیاری خام مال استعمال کرنے کی ترغیب کا شکار ہو سکتا ہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ ایک عام پاکستانی کو پانی بھی خریدنا ہوتا ہے، اسے اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں بھی پڑھانا پڑتا ہے اور علاج کے لیے نجی ہسپتال جانا پڑتا ہے۔
ان سب مقاصد کے لیے انہیں کہیں سے بھی رقم کمانا ہوتی ہے، تو اس ساری نجکاری اور نجی سرمائے کی حکمرانی کا سب سے زیادہ نقصان 22 کروڑ سے زائد باسیوں کو ہوتا ہے۔
نجی سرمائے سے چلنے والے صنعتی اداروں اور کارباری اکائیوں کی بات کی جائے تو پاکستان کے قوانین اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اصول دنیا بھر میں مزدروں کو حق یونین سازی دیتے ہیں لیکن پاکستان میں صرف پانچ فیصد مزدروں کو یونین سازی کا حق ہے۔
لیبر قوانین کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور صورت حال یہی ہے کہ بہت کم صنعتی اکائیوں میں پینے کا صاف پانی، بہتر کام کے حالات اور ہیلتھ یا سیفٹی سے متعلق اصولوں پر عمل ہوتا ہے۔
پاکستان میں بجلی اور گیس چوری میں بھی ایک بڑا حصہ ان لوگوں کا ہے جو نجی سرمائے کی مالا جپتے ہیں۔ اس کے علاوہ بینکوں سے اربوں کے قرضے بھی انہی سرمایہ داروں نے لے کر معاف کرائے ہیں۔
زمین پر قبضوں سے لے کر نجی سرمایہ کمپنیوں کے فراڈ تک، سب میں بالعموم انہی کا ہاتھ ہے۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں لیکن اگر معاشرے کے تمام پہلوؤں پر غور کیا جائے تو ہر طرف نجی سرمائے اور مالیاتی بدعنوانی میں گہرا رشتہ دکھائی دے گا۔
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔