کاروبار کرنے اور اسے بڑھانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور سرمایہ فراہم کرنے کا سب سے بڑا اور موثر ذریعہ بینک سمجھے جاتے ہیں۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کاروباری طبقہ بینکوں سے کتنا قرض لے رہا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بینکوں سےقرض لینا آسان بنایا جاتا ہے تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ بہتر انداز میں چل سکے اور ترقی پذیر ممالک میں حالات ایسے بنا دیے جاتے ہیں کہ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے بینکوں سے قرض نہیں لے سکتے۔
جس کے باعث بینکوں کا سرمایہ غیر پیداواری شعبوں میں لگتا ہے اور ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہو جاتی ہے۔ پاکستان کو بھی ایسے حالات کا سامنا ہے۔
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت نے بینکوں سے گذشتہ دو ماہ کے دوران 700 ارب روپے اضافی قرضے لیے ہیں، جس کے بعد قرضوں کا حجم 47 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
’جولائی تا مارچ کے دوران ریکارڈ 46 کھرب 90 ارب روپے کے قرضے لیے گئے، بھاری قرضے کے سبب نجی شعبے کی جانب سے 70 فیصد کم قرضے لے گیے، نتیجتاً اس سے معاشی ترقی کے لیے مشکلات درپیش رہ سکتی ہیں۔
’نمایاں ریونیو اکٹھا کرنے کے باوجود ریکارڈ قرضے حکومت کے بھاری اخراجات کو ظاہر کرتے ہیں، جو شاید قرضوں کی لاگت پر غوروفکر کیے بغیر لیے گئے۔ نجی شعبے کا بینکنگ سسٹم پر اعتماد کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ وہ مالی سال 2024 کے پہلے نو مہینوں میں مشکل سے 35 ارب روپے کا قرضہ لے سکا جبکہ مالی سال 2023 کی اسی مدت میں یہ رقم 264 ارب روپے تھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نجی شعبے کی طرف سے کم قرض لینے کی ایک اور وجہ ریکارڈ بلند شرح سود ہے۔
’سٹیٹ بینک نے اب تک پورے مالی سال 2024 کے دوران پالیسی ریٹ کو 22 فیصد پر برقرار رکھا جبکہ تجارت اور صنعت کے نمائندے گھریلو اور برآمدی مصنوعات دونوں کے لیے کاروبار کرنے کی لاگت کو قابل عمل بنانے کے لیے شرح میں 50 فیصد کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
’بینکوں نے 2023 میں صرف خطرے سے پاک سرکاری کاغذات میں سرمایہ کاری کے ذریعے زبردست منافع کمایا۔ اسی لیے بینک اب پرائیویٹ سیکٹر کو قرض دینے میں کم سے کم دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نجی شعبے کے لیے بینکوں سے قرض لینا بہت مشکل ہے۔
قرض لینے کے لیے کم از کم آٹھ ماہ سے ایک سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے جبکہ بیرون ممالک میں قرض 24 گھنٹوں میں منظور ہو کر اکاونٹس میں ٹرانسفر بھی ہو جاتا ہے۔ اس لیے پاکستانی کاروباری طبقہ دبئی منتقل ہو رہا ہے۔
’اگر آپ دبئی میں چھ ماہ سے کاروبار کر رہے ہیں اور قرض لینا چاہتے ہیں تو یہ بہت زیادہ آسان ہے۔ صرف ایک کلک کرنے سے قرض آن لائن اپلائی ہو جاتا ہےاور 24 گھنٹوں میں منتقل بھی ہو جاتا ہے۔
دبئی میں شرح سود چھ فیصد ہے اور پاکستان میں 22 فیصد ہے۔ دبئی کا ویزہ بھی آسانی سے میسر ہے۔ ان حالات میں پاکستان میں کیوں کاروبار کیا جائے؟
’بینکوں سے قرض لیے بغیر کمپنیاں نہیں چل سکتیں۔ پاکستان میں بینک یا تو بڑی کمپنیوں کو قرض دیتے ہیں یا سرکار کو جبکہ چین میں اگر کسی چھوٹی کمپنی یا فرد کو چھوٹا سا آرڈر بھی مل جائے تو بینک فورا قرض دے دیتا ہے۔ قرض کا مقصد مڈل کلاس طبقے کو کاروباری ماحول بنا کر دینا اور سپورٹ کرنا ہوتا ہے۔
’ملائشیا میں بھی مڈل کلاس طبقے کو کاروبار کرنے کے لیے آسان شرائط پر قرض دیے گئے تھے، اس کے بعد معاشی انقلاب آیا تھا۔ لیکن پاکستان میں جس شرح سود پر قرض مل رہا ہے، دو سے تین سال میں دُگنا واپس کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کاروبار نہیں چل سکتے۔‘
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر میاں نعیم جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کاروباری مخالف معاشی پالیسیز کے تسلسل نے پاکستان کو ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے کہ آج پاکستانی اکانومی کو ناکام معیشت کے طور پر پڑھایا جانے لگا ہے تاکہ دنیا سیکھ سکے کہ وہ کون سی غلطیاں ہیں جس نے پاکستان کو ناکام معیشت بنا دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’امریکہ کے ہارورڈ بزنس سکول میں پاکستان کو بھی معیشتی خرابیوں کے حوالے سے ایک وقیع موضوع کی حیثیت سے پڑھایا جا رہا ہے۔ جس کا موضوع ہے ’پاکستان ایٹ 75 : وین وِل دی ’نازک موڑ‘ اینڈ؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں کاروبار کرنے میں بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہے۔ کرپشن کم کرنے سے کاروبار بڑھ سکتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ وہ ایم آر او آف آئیرکرافٹس کے لیے ایک کمپنی کو پاکستان لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’لیکن دو سال سے پروسیجر ہی مکمل نہیں ہو رہا۔ ترکش ائیر لائن کئی ماہ تک پاکستان میں دفتر کھول کر بیٹھی رہی لیکن سول ایوی ایشن نے اجازت نہیں دی۔ ان حالات میں بیرونی سرمایہ کاری آنا مشکل ہے۔‘
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سینیئر نائب صدر آغا گل خلجی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نجی شعبے کے لیے بلوچستان میں کاروبار کرنے کے حالات نہیں رہے ہیں۔
’سکیورٹی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے بد امنی بڑھ رہی ہے۔ حکومت اور بینکوں کی جانب سے کوئی سپورٹ نہیں ہے۔ جب تک بڑی سفارش نہ ہو بینک سے قرض نہیں مل سکتا ہے۔
’اگر قرض مل جائے تو اتنا منافع نہیں ہوتا جتنا سود ادا کرنا پڑ جاتا ہے۔ سمیڈا کو کچھ تجاویز دی ہیں تا کہ بلوچستان میں کاروبار کے حالات بہتر ہو سکیں۔‘
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔