نیپال کے وسط مغرب میں واقع صوبہ كرنالی کے ضلع سُركیت كے 41 سالہ رہائشی ٹھیک بہادر گورتی اُن نیپالی كسانوں میں سے ہیں جو حال ہی میں انڈیا سے واپس آ کر اپنے گاؤں میں کھیتی باڑی کر رہے ہیں۔
ٹھیک بہادر گورتی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات كرتے ہوئے بتایا كہ وہ 2001 میں سب كچھ چھوڑ چاڑ كر انڈیا رزق كمانے گئے تھے اور سالوں وہاں كام كركے واپس اپنے اُسی كھیت میں کاشت کاری کرنے لگے جو انہوں نے سالوں پہلے چھوڑی تھی۔
’میں نے 2001 سے 2016 تک انڈیا كے مختلف شہروں میں سكیورٹی گارڈ وغیرہ كی چھوٹی موٹی نوكری كی جس سے گھر بار چلانا كافی مشكل ہوتا تھا، تاہم 20216 میں میں واپس آیا مگر یہاں كام نہ ہونے كی وجہ سے وقتاً فوقتاً مجھے واپس جانا پڑھتا مگر پچھلے ایک سے دو سال سے میں مستقل طور پر یہاں رہ كر ابھی اپنے گھر میں ہی كاشت كاری سے وہاں كے مقابلے میں دوگناہ منافعہ كما رہا ہوں۔‘
ٹھیک بہادر بتاتے ہیں كہ قریباً دوسال پہلے ان كے بھائی جو خود بھی سالوں انڈیا میں روزگار كے سلسلے میں گزار چكے تھے نے روایتی كاشت كاری کے بجائے جدید زراعت پر كام كرنے والے تنظیم ’آئی سی آئی موڈ‘ كی مدد سے کھتی باڑی شروع کی جس سے حیران كن طور پر خشک سالی كا مسئلہ حل ہوكر دوسرے علاقے كے كسانوں كے كاشت كے مقابلے میں اچھے معیار کی فصل ملنے لگی۔ یہ سب دیکھ کر ٹھیک بہادر بھی انڈیا میں كام چھوڑ كر مستقل طور كاشت كاری كرنے لگے۔
’جب میں نے بھائی كو دیكھا تو میں نے بھی اپنی زمین جو سالوں سے كاشت نہیں كی تھی اس پر دوبارہ كاشت كاری شروع كی اور اس مخصوص طریقہ كار كے تحت مجھے پہلے فصل لینے پر ہی انڈیا كے كام بنسبت دوگناہ فائدہ ہوا تو میں بھی اب پچھلے ڈیڑھ سال سے یہی گھر میں رہ كر وہاں سے دوگناہ زیادہ منافع کما لیتا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیپال میں سن 2021 كے مردم شماری كے مطابق دو كروڑ 91 لاكھ سے زائد آبادی کے حامل اس ملک كے 30 لاكھ كے قریب افراد انڈیا كے مختلف شہروں میں كام كرتے ہیں جن میں 10 لاكھ كے قریب نیپالی اپنے ملک میں مناسب روزگار نہ ہونے كے سبب مستقل طور پر انڈیا ہجرت كرچكے ہیں۔
ٹھیک بہادر كہتے ہیں كہ نئے طریقہ کار ’پلاسٹک ملچنگ‘ استعمال كرنے سے ان كو كئی فوائد ملے ہیں۔
’یہ پودوں كے جڑوں كو نم ركھنے كے ساتھ ساتھ ان كے درجہ حرارت برقرار ركھتا ہے دوسرا بارشوں كے موسم میں اگر زیادہ پانی آئے تو اسے جمع نہیں ہونے دیتا، تیسرا اس سے بارش كے وقت پودہ كیچڑ كے چونٹوں سے جس سے اكثر فصلیں تباہ ہوتی تھی اسے محفوظ ركھتا ہے اور پودے كے پتے زمین كے ساتھ نہ لگنے كے سبب فنگس اور دوسری بیماریاں نہیں لگتی۔‘
ٹھیک بہادر نے بتایا كہ اس مخصوص طریقہ كار کے ذریعے پیدا ہونے والی ان كی فصل كے صحت مند اور تازہ ہونے كے سبب ماركیٹ میں عام نرخوں کی نسبت وہ اچھی قیمت وصول كرلیتے ہیں۔
ہندوکش ہمالیہ ریجن پر کام کرنے والی آٹھ ممالک (پاكستان، افغانستان، انڈیا، چین، نیپال، میانمار، بوٹان اور بنگلہ دیش) پر مشتمل تنظیم آئی سی آئی موڈ (انٹرنیشنل سینٹر فار انٹرگریٹڈ ماؤنٹین ڈولپمنٹ) کے رکن ڈاکٹر عابد حسین کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ کسانوں کو غیر روایتی طرز اور انہیں موسمیاتی تبدیلی کو سمجھنے میں معاونت فراہم کرکے ہی مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
’ایكو كریجیكل كنڈیشن (ماحول سے مطابقت ركھنے والی فصلیں) كے مطابق فصل كا انتخاب كیا جائے، جن علاقوں میں جہاں پانی ہے مگر كم مقدار میں ہے وہاں اس طرح كے چھوٹے چھوٹے حل نكالنے پڑھتے ہیں، بارش كی پانی كو جمع كیا جاتا ہے چھوٹے ڈیم بنا كر تاكہ كبھی بارش ہو تو اس كی پانی سٹور كرے اور ملچنگ جس میں مٹی كی نمی برقرار رہتی ہے، یہ چھوٹے چھوٹے پریكٹیسز ہے جیسے ہم كوئی سویٹر بنتے ہیں چھوٹے چھوٹے ٹانكے لگا كر ہم ان چھوٹے چھوٹے پریكٹیسز كو ہم ریزیلینٹ فوڈ سسٹم میں تبدیل كرسكتے ہیں۔‘
ڈاكٹر عابد حسین كہتے ہیں كہ موسمیاتی تبدیل كا اثر چاہے كیوں نہ بڑی سطح پر ہوں تاہم اس كے مقابلے اور حل کے لیے مخصوص طریقہ كار اپنانے سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے جن میں سے ایک پلاسٹک ملچنگ ہے۔
’كلائمیٹ چینج ایک گلوبل ایشو ہے اس كے اثرات بڑی سطح پر ہوسكتے ہیں مگر اس كے حل كا طریقہ كار مخصوص ہوتا ہے، جو کنٹیكٹس ہوتا ہے اس كے لحاظ سے آپ نے حل كے لیے اقدامات کرنے ہیں، كلائمٹ چینج كا اثر زراعت یا غیر زرعی شعبے پر پڑ رہا ہے اسے كیسے ختم كرے، ملچنگ ایک خاص حل ہے، جن علاقوں میں موسمیاتی تبدیلی كے باعث خشک سالی آتی ہے، پانی كی كمی ہے، لمبے عرصے تک بارشیں نہیں ہوتی، آبپاشی كا نظام نہیں ہے، آپ نے پانی كو مٹی میں برقرار ركھنا ہے وہاں ملچنگ استعمال كیا جاتا ہے، ملچنگ قدرتی طور پر بھی ہوسكتی ہے اور پلاسٹک سے بھی ہوسكتی ہے، خاص طور پر یہ ہوتی سبزیوں کے لیے مگر ہم پھلوں اور دوسرے فصلوں کے لیے بھی استعمال كرسكتے ہیں۔‘
نیپال كی كل 22 لاكھ ہیكٹر زمین پر ہونے والے كاشت كاری میں سے تقریبا 64 فیصد زیر کاشت علاقے زیادہ تر مون سون کی بارشوں پر ہی انحصار کرتے ہیں تاہم پچھلے چند سالوں سے بارش کے وقت، مدت اور شدت میں تبدیلی كے باعث زراعت كا شعبہ كافی متاثر ہوا ہے۔
مگر آئی سی آئی موڈ اور دوسرے زراعت پر كام كرنے والے اداروں كے سبب اب غیر روائتی طرز، ٹیكنالوجی اور بدلے ہوئے موسم كے مطابقت کے کاشت کاری سے كسان دوبارہ اس جانب راغب ہو رہے ہیں۔