امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ دی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پراسرار غیر ملکی رہنما سے نجی حیثیت میں ایک خفیہ وعدہ کیا جس نے امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے ایک عہدیدار کو اتنا پریشان کر دیا کہ وہ ان کے خلاف ’خبردار کرنے والی‘ شکایت جمع کرانے پر مجبور ہو گئے۔
شکایت کی تفصیلات ابھی تک مبہم ہیں اور اس کے باوجود کہ اسے ’فوری تشویش‘ کا معاملہ سمجھا جا رہا ہے، صدر کے نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جوزف میگوائر نے فی الحال یہ تفصیلات کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین ایڈم شیف کو دینے سے انکار کر دیا ہے، حالانکہ کمیٹی نے ڈائریکٹر کو طلب بھی کیا تھا۔
امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر بنائی گئی دیوار کا دورہ کرنے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ریاست کیلی فورنیا میں تھے جب انہوں نے اپنی مخصوص بڑھک مارتے ہوئے دیوار کی ’عالمی معیار کے سکیورٹی نظام‘ کے طور پر تعریف کی۔ بعد میں انہوں نے اپنی مواخذے کی باتوں کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ’یہ وقت کا کیسا ضیاع ہے۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جب بہت کچھ اچھا کیا جا سکتا ہے۔‘
واشنگٹن پوسٹ نے مزید لکھا کہ جلد ہی ذرائع ابلاغ اس معاملے کی بال کی کھال اتارنا شروع کر دیں گے کیونکہ اس میں خفیہ اور پس پردہ ساز باز کے عنصر سمیت قومی سلامتی کو لاحق خطرہ اور ٹرمپ انتظامیہ میں اعلیٰ ترین سطح پر قانون شکنی کا امکان موجود ہے۔ ہو سکتا ہے اس ضمن میں حکم بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود دیا ہو۔ اس تمام صورت حال نے معاملے کو ’خطرناک سازش‘ کا رنگ دے دیا ہے۔
اور اب کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شیف اور انٹیلی جنس عہدیدار کے پراسرار معاملے نے ایک نیا اور منحوس موڑ لے لیا ہے۔ ایک ایسا موڑ جس سے صرف اس تشویش کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ قانون شکنی کا ایک سنجیدہ اور خطرناک عمل سامنے آ سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسئلے کو بہت ہی ہلکا لیا جائے تو بھی روایت شکن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نگرانی کے نظام میں ایک اور کمزوری دیکھی جا رہی ہے اور جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے اس معاملے میں ایک اہم اور بڑے اصول کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔
نئی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس آفس نے کانگریس کمیٹی کے چیئرمین ایڈم شیف کو بتایا ہے کہ کمیٹی کو انٹیلی جنس عہدیدار کی شکایت نہیں بھیجی جائے گی حالانکہ شکایت بھجوانا قانونی تقاضا ہے۔
اگرچہ کمیٹی کو شکایت کی تفصیل سے آگاہ نہ کرنے کا جواز معقول ہے لیکن اس سے مزید سوالات پیدا ہو گئے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
یہ تنازع اُس وقت کھڑا ہوا جب ایڈم شیف نے اعلان کیا کہ ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس آفس کے انسپکٹر جنرل نے انہیں ایک انٹیلی جنس عہدیدار کی اس شکایت کے بارے میں خبردار کیا جو ان کے حوالے کی گئی تھی۔ ایڈم شیف کی رائے میں انسپکٹر جنرل نے اس شکایت کو ’قابل اعتبار‘ سمجھا۔
ڈائریکٹر آف دی نیشنل انٹیلی جنس جوزف میگوائر نے شکایت انٹیلی جنس کمیٹی کو نہیں بھجوائی حالانکہ ایسی شکایات سامنے آنے کی صورت میں ان سے نمٹنے کا طریقہ موجود ہے۔ یہ طریقہ وفاقی قانون کے تحت طے ہے۔
قانون کے مطابق کوئی انٹیلی جنس عہدیدار سب سے پہلے انسپکٹر جنرل کو اپنی شکایت بھیجتا ہے جو شکایت کے ’فوری تشویش ناک‘ اور ’قابلِ اعتبار‘ ہونے کا تعین کرتے ہیں۔ شکایت تشویش ناک اور قابل اعتبار ہونے کی صورت میں ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس اسے کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی کو بھیج دیتے ہیں۔
اس کیس میں ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس نے شکایت کمیٹی کو نہ بھیجنے کی منطق یہ بیان کی ہے کہ یہ قانون کے مطابق ’فوری تشویش‘کی تعریف پر پوری نہیں اترتی، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق انٹیلی جنس کمیونٹی کے کسی عہدیدار کے عمل یا ایسی سرگرمی سے نہیں ہے جو ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کی عمل داری میں آتا ہو۔