نجانے لڑکیوں کو پاکستان سے باہر بیاہنے کا شوق والدین میں اب بھی قائم ہے یا ختم ہو گیا، لیکن آج کا موضوع باہر بیاہ کر آنے والی لڑکیوں کی ہائے ہائے نہیں، گھر داماد بن کر یورپ آنے والے لڑکوں کی وہ خاموش کراہیں ہیں جو وہ مارے شرمندگی اور جھینپ کے کسی کو سناتے نہیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
میں نے اپنے گذشتہ کالمز میں ذکر کیا ہے کہ ان دنوں ناروے میں پاکستانی کمیونٹی کے حوالے سے ایک سائنسی ریسرچ پروجیکٹ کا حصہ ہوں جس کا مقصد ناروے آنے والے پاکستانیوں کی پہلی اور دوسری نسل کے مردوں کے خیالات جانچنا ہے کہ وہ خواتین، صنفی بنیاد پہ تشدد، صنفی بنیاد پہ ذمہ داریوں کی تقسیم اور مردانگی کی فرسودہ سوچ کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں۔
اس ریسرچ کے دوران کمیونٹی کے چند ایک ایسے مردوں سے ملنا ہوا جو بطور گھر داماد ناروے آئے تھے اور پھر جو ان کے ساتھ ہوا وہ ہر گھر داماد کی اپنی کہانی ہے۔
انٹرویوز میں یورپ کے پاکستانی گھردامادوں نے جو کہانیاں سنائیں وہ کم نہ تھیں کہ پھر ایک فارن سسرال میں واجبی سے پڑھے لکھے گھر داماد کا حشر نشر ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور سوچا بہتر ہے کہ امریکہ، یورپ ، کینیڈا اور آسڑیلیا کا شارٹ کٹ ڈھونڈنے والے لڑکوں کو کچھ کان ہوجائے۔
جس کا ذکر ہے یہ گھر داماد گذشتہ کئی برسوں سے مختلف ہوٹلوں میں مزدوری کررہا ہے، کزن میرج ہوئی تھی تاہم اس شادی میں بظاہر پاکستانی نژاد نارویجن لڑکی کی مرضی شامل نہیں لگتی کیونکہ دونوں کی شخصیت اور تعلیم میں واضح فرق ہے۔
جبکہ ایک دوسرے سے برتاؤ میں برابری بالکل نہیں، یہ ماسڑ اور گیراج پہ کام کرتے چھوٹے کا سا رشتہ لگا۔ اس گھر داماد کو گاڑی چلانا سکھایا گیا ہے لیکن نارویجن زبان روانی سے نہیں آتی یا پھر سیکھنے کا موقع نہیں ملا۔
اس گھر داماد کے بچے ہیں لیکن بچے فرفر نارویجن زبان بولتے ہیں اور ماں کے قریب ہیں جبکہ اردو بولتے باپ کے ساتھ بچوں کی ہچکچاہٹ نظر آئی۔
واضح نظر آرہا تھا کہ گھرمیں ہونے والی کسی بھی بات چیت میں اس گھر داماد کو شامل نہیں کیا جاتا، کئی بار اس گھر جانا ہوا اور ہر بار اس گھر داماد کو کام سے واپس آنے کے بعد کھانا پکاتے اور ٹیبل لگاتے ہوئے ہی دیکھا۔
ایک صاحب نے بتایا کہ بطور گھر داماد ان کے پاس کئی سال گزارنے کے باوجود ناروے میں مستقل سکونت کے مکمل دستاویزات نہیں تھے کیونکہ بیگم ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے ٹال دیتیں۔
ایک پڑھے لکھے پاکستانی تارک وطن نے جب بتایا کہ وہ پاکستان سے گھر داماد بن کر آئے تو ان کا پاسپورٹ کئی برس تک ان کے سسر کے پاس تھا تو مجھے لگا کہ یونہی سسرال والوں کی خار نکال رہے ہیں لیکن بعد میں یہی طریقہ واردات ایک اور پاکستانی مرد کی زبانی سُنا۔
یہ پڑھے لکھے گھر داماد تھے لیکن سُسر کے بھائی نے ایک بلڈنگ کی صفائی کا ٹھیکہ لے رکھا تھا یوں یہ سوئیڈن میں دو سال تک ایک عمارت میں جھاڑو لگاتے رہے، ٹوائلٹ صاف کرتے رہے۔
تصاویر سے تو لگتا ہے کہ لڑکا باہر گیا اور جاتے ہی سسرال کے ملٹی ملین ڈالرز کے بزنس کا مالک بن گیا، بیگم ماڈرن اور بچے فارن نیشنل، لیکن تصاویر کا کیا ہے، وہ تھوڑا ہی کرب و مصیبت کے قصے سناتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک صاحب جو نارویجن شہری بن چکے ہیں لیکن گھر داماد کا مضحکہ خیز ٹھپہ ان کے مطابق ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔
ان کے مطابق ان کی کزن کے ساتھ گھر والوں نے شادی کرائی تاکہ لڑکا باہر سیٹل ہوجائے اور کمائے لیکن ان کی بیگم کے لیے یہ ایک زبردستی کرائی جانے والی شادی تھی۔
یہ دونوں 15 برس سے ساتھ ہیں لیکن ان صاحب کے مطابق انہیں بیگم کی جانب سے پولیس بلاکر اندر کرانے کی دھمکی گاہے بگاہے ملتی رہتی ہے۔
یہاں ایک ایسے پی ایچ ڈی سکالر سے بھی ملاقات ہوئی جو اعلیٰ تعلیم کے لیے سکینڈینیویا آئے، پاکستانی نژاد جرمن خاتون سے شادی کی اور گھر داماد بن کر یورپ میں سسرال کے کھانے کے بزنس میں لگے ہیں۔
ان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے سارے کس بل ابتدا میں ہی نکال دیے گئے تھے، اس لیے وہ ان 20 برسوں میں صرف ایک بار اپنے والد کے مرنے پہ پاکستان گئے۔
پاکستانی گھر داماد چاہے جتنے مجبور ہوں لیکن ہیں تو مرد، جنہیں پاکستانی معاشرے نے مردانگی کی مخصوص روایات سکھائی ہوتی ہیں تو یہ مرد پھر کیوں کسی کی زور زبردستی برداشت کرتے ہیں؟
تو کہانی ہے سیدھی سی، یہ لڑکے پاکستان سے رخصت ہو کر سسرال کا گھر آباد کرنے نہیں کمانے آتے ہیں تاکہ پاکستان میں بیٹھے گھر والوں کو پیسے بھیج سکیں اور اسی مجبوری کو فارن میں بیٹھا سسرال اچھی طرح سمجھتا ہے۔
گھر دامادوں کی کہانی کا دوسرا رخ تب شروع ہوتا ہے جب یہ بیرون ملک سسرال میں دبے رہ کر اپنا وقت کاٹ لیتے ہیں لیکن جیسے ہی انہیں نیشنلٹی ملتی ہے پھر یہی گھر داماد لڑکی کے ناک میں دم کرکے ہی جان چھوڑتے ہیں۔ یہ بھی ایک تحقیق طلب سماجی مسئلہ ہے۔
آن لائن رشتہ کرانے والے پلیٹ فارمز میں انٹرنیشنل رشتوں کی الگ دکان سجی ہے جہاں 25 سے 30 سال کے انجنیئر، ڈاکٹر، آئی ٹی، ایم بی اے، ڈپلومہ ہولڈر، کم سے کم گریجویٹ اور ہنرمند کا رشتہ سب سے زیادہ ڈیمانڈ میں ہے۔
لیکن شارٹ کٹ یورپ کے شوقینوں کو شاید علم نہیں جن میں تپڑ ہو وہ ُترکی سے ڈنکی لگاتے ہیں، لیکن جنہیں گھر داماد بن کر یورپ جانے کا شوق ہو پھر ان کی کئی برس روزانہ سسرال میں ڈنکی لگتی ہے۔
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔