’آپ جو مرضی کر لیں میں نے پاکستان یاترا پر جانا ہے۔‘
یہ الفاظ ہیں جیوتی ملہوترا کے جو بیساکھی کے تہوار پر انڈین پنجاب سے اکیلی پاکستان پہنچی ہیں۔
جیوتی نے یہ الفاظ اپنے گھر والوں سے کہے جو انہیں پاکستان آنے سے روکنا چاہتے تھے۔ وہ اس وقت مختلف گرودواروں کا دورہ کرتے ہوئے گوجرانوالا ایمن آباد میں روہڑی صاحب کے دورے پر پہنچی ہیں۔
جیوتی کے مطابق انہیں پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کے لیے ایک سال کا انتظار کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں درشن کرنے پنجہ صاحب اور ننکانہ صاحب کے گرودوارے بھی گئی ہوں اور وہاں میں نے لنگر بھی کھایا ہے۔
’اگر لنگر کے ذائقے کی بات کی جائے تو مجھے پاکستانی پنجاب میں بھی انڈین پنجاب کا ذائقہ محسوس ہوا ہے لیکن یہاں گوجرانوالا کے لنگر کا ذائقہ تھوڑا مختلف تو ہے مگر لذیذ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے گھر والے میرے پاکستان جانے کے بارے میں فکرمند اور پریشان تھے وہ مجھے بھیجنے پر راضی نہ تھے لیکن میں نے ان کا اعتماد قائم کیا اور انہیں بتایا کہ میں گرو گھر جا رہی ہوں اور وہاں سب محفوظ ہو گا۔‘
ان کے مطابق: ’جیسے میں نے سوچ رکھا تھا بالکل ویسا ہی ہوا۔ یہاں سب محفوظ اور بڑا اچھا ہے یہاں لوگوں کو مل کر ایسے لگ رہا کہ جیسے کوئی بچھڑا بھائی تھا جو اب مل گیا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جیوتی ملہوترا کا مزید کہنا تھا کہ ’جب مجھے ویزا نہیں مل رہا تھا تو میں بھی یہی سوچتی تھیں کہ شاید میں لڑکی ہوں اور اکیلی جانا چاہ رہی ہوں اس وجہ سے مجھے پاکستانی ویزا نہیں مل رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’لیکن جب مجھے ویزہ مل گیا اور میں یہاں آئی تو مجھے پاکستانی اور انڈین پنجاب کا کلچر ایک جیسا ہونے پر یقین ہو گیا کیونکہ جس طرح انڈین پنجاب میں لڑکیوں کا عزت و احترام کیا جاتا ہے پاکستانی پنجاب میں بھی مجھے بطور لڑکی وہی عزت و احترام دیا گیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک تقسیم تو ہوا ہے مگر کلچر ایک جیسا ہے۔‘
ایک اور سکھ یاتری گرتاج جو روہڑی صاحب درشن کے لیے آنے والی یاترا میں سب سے کم عمر تھے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوا بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کو نہیں بتا کر آئے کہ وہ پاکستاں جا رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے دوستوں کو سرپرائز دینا چاہتے تھے۔ یہاں آ کر انہوں نے کئی گرودواروں کے درشن کیے ہیں اور انہیں بہت اچھا لگا ہے۔
گرتاج کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے میرے والدین نے بتایا تھا کہ ہم نے پاکستان یاترا پر جانا ہے تو میں بھی ان سے ضد کرنے لگا کہ میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا۔ مجھے سکول سے چھٹیاں نہیں تھیں۔
’مگر اس کے باوجود میں یاترا پر جانے کے لیے تیار ہوا اور اب اس کے بعد میں اپنے دوستوں کو جا کر مختلف تحفے بھی دوں گا اور انہیں بتاوں گا کہ پاکستان یاترا پر جانا چاہیے وہاں کوئی ڈرنے والی بات نہیں ہے۔‘