بھگت تارا چند ریستوران کے چند قدیم ترین پکوانوں میں سے ایک آلو کا سالن ہے، جو پرکاش چاولہ کے دادا نے کراچی شہر میں واقع انیسویں صدی کے ایک چھوٹے سے ریستوران میں تیار کیا۔
تقریباً 130 سال بعد بھی اس ریستوران میں وہی ڈشز بنائی جاتی ہیں لیکن اب یہ ریستوران کراچی کی بجائے سرحد پار انڈین شہر ممبئی میں ہے۔
عرب نیوز کے مطابق تارا چند چاولہ نے ساحلی شہر کراچی میں یہ ریستوران 1895 میں قائم کیا، جو قیام پاکستان کے بعد صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔
اس ریستوان میں سندھی روٹی، پیاز کا پراٹھا اور موسمی سبزیاں کھانے کے لیے پیش کی جاتی تھیں۔
ابتدا میں چاولہ کا ریستوران گمنام تھا لیکن جلد ہی یہ ریستوران انہی کے نام سے مشہور ہو گیا اور لوگوں نے احترام کے طور پر ان کے نام کے ساتھ بھگت کا لفظ لگا دیا۔
پرکاش نے عرب نیوز کو بتایا: ’میرے دادا ایک فیاض شخص تھے۔ وہ کسی کو بھوکا نہیں رہنے دیتے تھے، چاہے کسی کے پاس پیسے ہوں یا نہ ہوں۔ اسی وجہ سے ان کے نام میں بھگت کا اضافہ کیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھگت تارا چند تقسیم ہند سے چند سال قبل 1942 میں کراچی میں چل بسے تھے۔
1947 میں قیام پاکستان کے بعد پرکاش کے والد، کھیم چند سمیت بھگت تارا چند کے بیٹے تقریباً نو سو کلومیٹر دور انڈیا کے شہر ممبئی منتقل ہو گئے۔
یہ خاندان تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی کا حصہ بن گیا۔ اس نقل مکانی میں سیاسی افراتفری کے ماحول میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد ایک سے دوسرے ملک منتقل ہوئے تھے۔ اس دوران 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جان گئی۔
پرکاش کے بقول: ’انڈیا منتقل ہونے کے بعد زندگی کا آغاز آسان نہیں تھا۔ میرے والد زویری بازار میں ریستوران قائم کرنے کے لیے محنت کر رہے تھے۔ یہ صرف چھ میزوں پر مشتمل ریستوران تھا۔‘
اس ریستوران کو اس کے بانی کی یاد میں بھگت تارا چند ریستوران کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جیسے ہی کاروبار پھلنے پھولنے لگا، کھیم چند کے بھائیوں نے ریستوران کی مختلف شاخیں کھول لیں لیکن کھیم چند ممبئی کے تاریخی صرافہ بازار میں اصل مقام پر رہے، جہاں پرکاش نے 19 سال کی عمر میں کام کرنا شروع کیا۔
تقریباً نصف صدی کے بعد، اب بھی یہ کاروبار ان کی نگرانی میں جاری ہے۔ اب اس ریستوران کی چار منزلیں ہیں جب کہ نئے پکوانوں کو مینیو کا حصہ بنایا گیا ہے۔
انڈین ریاست مہاراشٹر، گجرات اور مدھیہ پردیش میں پرکاش اور ان کے کزن 25 شاخیں چلاتے ہیں۔ اب یہ سبزیاں اور دالیں پیش کرنے والے ملک کے بڑے ریستورانوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کی مشہور ڈش سبزی پلاٹر ہے۔
پرکاش کا کہنا ہے کہ ’سبزیوں پر مشتمل تھالی میں ہم تین اقسام کی سبزیاں پیش کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دالیں، چپاتی، چاول یا پلاؤ جو بھی آپ چاہیں، میٹھا، کوئی خستہ شے اور اچار ہوتے ہیں۔ پلاٹر دو لوگوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔‘
کچھ پکوان وہ ہیں جو کراچی میں تیار کیے جاتے ہیں۔ ان ڈشز میں آلو مٹر، آلو اور چنے کا شوربے والا سالن اور آلو میتھی شامل ہیں۔
وشال چاولہ، پرکاش کے بیٹے ہیں جو ریستوران چلانے میں ان کی مدد مدد کرتے ہیں۔ وشال کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک میرے والد کو یاد پڑتا ہے یہ چند قدیم ترین ڈشز ہیں جو ہم پیش کرتے ہیں۔
’جب میرے پردادا، میرے دادا اور یہاں تک کہ ایک حد تک میرے والد بھی ریستوران چلاتے تھے، تو کوئی مینیو کارڈ نہیں تھا۔ وہ صرف دن کی ڈش لکھتے تھے۔ یہ اس بات پر منحصر تھا کہ آپ جانتے ہوں کہ بازار میں کون سی تازہ سبزیاں دستیاب ہیں۔‘
کاروبار کا دائرہ متحدہ عرب امارات، جہاں بڑی تعداد میں انڈین شہری موجود ہیں، تک پھیلانے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے وشال اپنے آبائی شہر کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔
لیکن جب تک انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب رہیں گے، ویزا حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ان کے ایک چچا پہلے ہی کوشش کر چکے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
وشال کے مطابق: ’مجھے امید ہے کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے، کم از کم میری زندگی میں اور اگر یہ امکان پیدا ہو گیا تو میں اس ریستوران کی جڑوں کے ساتھ دوبارہ جڑنا پسند کروں گا۔‘
اپنے ریستوران اور خاندان کو سامنے رکھتے ہوئے ان سب کو فخر ہے کہ وہ اس ورثے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بشکریہ عرب نیوز