پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق نے اسلام آباد میں وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ’کینیا کے صدر سے ملاقات میں ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے بات کی ہے کہ یہ تحقیقات قانونی نتیجے تک پہنچنی چاہئیں۔‘
انہوں نے کینین صدر سے کہا کہ ’اگر آپ کی اتھارٹیز میں کوئی کلپرٹ اس میں ملوث ہیں، یا کوئی بھی تحقیقاتی نتائج آپ کے پاس موجود ہیں تو ہم سے شیئر کریں، کیوں کہ ہمارے ہاں یہ ایک بہت اہم سوال موجود ہے کہ اس معاملے کا کیا ہوا؟‘
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’ہمیں یقین دلایا کہ کافی تحقیقات اس سلسلے میں ہو چکی ہیں، جو باقی ہیں وہ بھی جلد نتائج تک پہنچیں گی۔ دو تحقیقاتی دوروں کا انہوں نے حوالہ دیا کہ آپ کی اتھارٹیز ہمارے یہاں کر چکی ہیں، اور اگر مزید ضرورت ہو گی تو بھی ہم ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔‘
قبل ازیں 19 اکتوبر کو انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق کا کہنا تھا کہ انہوں اپنے شوہر کے قتل کے مقدمے میں نامزد کینیا پولیس کے اہلکاروں کے خلاف نیروبی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ ارشد شریف کو گذشتہ سال 23 اکتوبر کو کینیا میں قتل کیا گیا تھا۔ کینیا کی پولیس نے اعتراف کیا تھا کہ ’غلط شناخت‘ کے باعث ارشد کی گاڑی پولیس کی گولیوں کی زد میں آئی۔
اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرنے کے بعد حال ہی میں میڈیا پر انہیں نوکری پر بحال کرنے کی خبریں چلیں جس کے بعد دائر کی جانے والی درخواست میں جی ایس یو اور ان کے ہمراہ پانچ پولیس اہلکار بھی شامل تھے جو قتل کے اس مقدمے میں نامزد تھے۔ ان کے علاوہ کینیا کے اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن، آئی جی نیشنل پولیس سروس، انڈپینڈنٹ پولیس اور نیشنل پولیس سروس کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر افضل بٹ نے صحافی ارشد شریف کی پہلی برسی کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ارشد شریف کے قاتلوں تک پہنچنا پاکستان اور کینیا کی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ’ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ارشد شریف کے قاتلوں کا سراغ نے لگانا پاکستان اور کینیا کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب اقوام متحدہ کا فرض بنتا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دے۔‘
اپنی پریس کانفرنس کے دوران نواز شریف کی واپسی، بائیو میٹرکس اور الیکشن سے قبل کی صورت حال پر کیے گئے ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کو جتانے کے لیے ماحول بنایا جائے تو پھر لیول پلیئنگ فیلڈ ہو گا، تو اس کا تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میاں نواز شریف پیدائشی طور پہ پاکستانی ہیں تو ان کے بائیومیٹرکس کے لیے حکومت نے ایسا خاص کام کیا کیا ہے؟‘
’وہ پاکستانی شہری ہیں، انہیں اس سارے عمل سے کیا فائدہ ملا ہے، ایک نارمل پروسیجر کو ایسا کیوں بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔‘
’ہمارا کام صرف اس عمل کو اسسٹ کرنا ہے تاکہ تینوں جماعتوں کو لیول لیئنگ فیلڈ ملے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سیاسی عمل سے باہر ہو، سوائے اس کے کہ کوئی عدالتی پابندی لگ جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ ’ڈیڑھ دو مہینے میں ہم نے ایسی کون سی کوشش کر لینی ہے کہ ایک جماعت کو 171 سیٹیں مل جائیں؟ کوئی کہے کہ میں پارلیمنٹ کو آگ بھی لگاؤں گا اور جمہوریت کا چیمئن بھی بنوں گا تو ایسے ماحول میں سوشل آرڈر قائم نہیں رہتا۔ قانون کی نظر میں ایسا ممکن نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہی سب کچھ اگر جمعیت علمائے اسلام نے کیا ہوتا تو آپ سب نے انہیں مولوی بھی قرار دینا تھا، اسلام کو ریڈیکل قسم کا دین بھی کہنا تھا اور کہنا تھا کہ ان پر ایف 16 سے بمباری کریں۔‘ نیز ’یہ کسی بھی دوسری مین سٹریم جماعت نے کیا ہوتا تو آپ کیا کرتے؟ کیا یہ رول آف لا نہیں ہے کہ وہ سیاسی جماعت قانون کا سامنا کر رہی ہے۔‘
اپنے دورہ چین سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دورے کے دوران چینی صدر سمیت دیگر رہنماؤں سے اہم اور انتہائی مثبت ملاقاتیں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ دورے کے دوران اہم تعمیری اور مفید بات چیت ہوئی، امید کرتے ہیں کہ اسے جاری رکھتے ہوئے ہم منتخب حکومت کے حوالے کریں گے، جو بھی حکومت ہو، پاک چین تعلقات کا تسلسل سب سے اہم ہے، اس کی وجہ سے بے یقینی کا تاثر زائل ہوجاتا ہے۔
’بی آر آئی منصوبہ نہ صرف چین کے لیے، پورے خطے بلکہ خطے کے علاوہ دیگر ممالک کے لے بھی مواقع پیدا کرتا ہے، ہمارے یہاں شاید بی آر آئی کی اہمیت وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے، یہ ممالک کو جوڑنے کے ساتھ نئے مواقع بھی پیدا کر رہا ہے۔‘