سابق عالمی نمبر ون گاربین مگروزا سپین کی گذشتہ دہائی کی بہترین خاتون ٹینس کھلاڑی ہیں۔ لہٰذا جب وہ صرف 30 سال کی عمر میں اس ماہ کے اوائل میں ریٹائر ہوئیں، تو انہیں ان تمام سوالات کا سامنا کرنا پڑا جن کی آپ توقع کر سکتے ہیں: اب کیوں؟ ٹینس کے متعلق آپ کو کیا یاد آئے گا؟ آپ آگے کیا کریں گی؟
تاہم ایک سوال کی انہیں توقع نہیں تھی۔ گذشتہ ہفتے میڈرڈ میں لاریس ایوارڈز کی تقریب میں ریڈ کارپٹ پر مگروزا کو صحافیوں کے ہجوم کا سامنا کرنا پڑا اور ان میں سے ایک نے کہا: ’لوگ کہہ رہے تھے کہ وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ آپ نے ٹریننگ چھوڑ دی ہے، بالخصوص سوشل میڈیا پر، لوگ آپ کی جسامت کی وجہ سے آپ کے بارے میں منفی باتیں کر رہے تھے۔‘
مگروزا کی آنکھیں اچانک کھلی کی کھلی رہ گئیں، کیونکہ وہ واضح طور پر حیران تھی۔ پھر وہ مسکرائیں۔ ان کے سامنے چار مائیکروفون اور اتنے ہی کیمرے لگے تھے تو اس طرح کے سوال پر وہ اور کیا کرتیں؟
مگروزا کا چونکہ دوبارہ پیشہ ورانہ ٹینس کھیلنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا تو انہوں نے شاید سوچا ہو گا کہ اب انہیں اپنی جسامت کے متعلق سوالات کا جواب بن نہیں پڑے گا۔ یہاں ایک واضح نکتہ یہ بھی ہے کہ اس طرح کی باتیں کرنا کسی کا حق نہیں ہے۔
ہر لمحے کو قید کرنے کے لیے بے چین پاپرازی، صحافیوں، اور سمارٹ فون کیمروں والے لوگوں سے گھرے ہوئے سرخ قالین پر چلتے ہوئے، آخری چیز جو وہ چاہیں گی وہ سوشل میڈیا ٹرولز کے بارے میں ایک یاد دہانی ہے۔
یعنی وہ لوگ جنہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب خواتین کے لیے مقرر کردہ ناممکن خوبصورتی کے معیارات پر پورا نہیں اترتی- ایلیٹ خاتون ایتھلیٹ کے لیے مقرر کردہ معیارات پر پورا اترنا دور کی بات ہے۔
لیکن پھر بھی انہوں نے اس مضحکہ خیز سوال کا ناقابل یقین شائستگی کے ساتھ جواب دیا۔ ’اچھا، اگر میں نے ٹریننگ نہیں کروں گی تو کیا ہو گا؟‘
مگروزا نے مجبوراً پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ’میں زندگی جینا چاہتی ہوں، زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہوں۔ ٹریننگ انتہائی مشکل ہے، لہذا جب آپ کے پاس زندگی سے لطف اندوز اور زیادہ آرام کا موقع ہو تو آپ اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ ایک اولمپک ایتھلیٹ کی جسامت، ہم سب جانتے ہیں...‘ وہ ایک بار پھر مسکرائیں۔ ’میں واضح کر دوں - اہم بات صحت مند رہنا اور زندگی سے لطف اندوز ہونا ہے۔‘
مگروزا کے ردعمل کے کلپ کو سپین بھر میں توجہ ملی اور اس نے وسیع پیمانے پر بحث کو جنم دیا۔ کچھ لوگوں نے اس صورت حال سے نمٹنے کے ان کے طریقے کی وجہ سے انہیں سراہا، اور یہ صحیح بھی ہے۔ لیکن انہیں اس طرح کی صورت حال درپیش نہیں آنا چاہیے تھی۔
حالیہ مہینوں میں سپین کی کھیلوں کی ثقافت کا قریبی جائزہ لیا گیا ہے، خاص طور پر جنسیت اور عدم مساوات کے مسائل کو سرفہرست رکھتے ہوئے۔
اس کی شروعات اس وقت ہوئی جب گذشتہ اگست میں ورلڈ کپ ٹرافی کی تقریب کے دوران ہسپانوی فٹ بال فیڈریشن کے سابق سربراہ لوئس روبیالس نے خاتون کھلاڑی جینی ہرموسو کے منہ پر بوسہ دیا۔
سپین کی تاریخی فتح کا لمحہ روبیالس کے اس عمل سے داغدار ہو گیا اور اس پر زبردست رد عمل کا اظہار کیا گیا۔
خواتین کی ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں نے میچوں کا بائیکاٹ کیا، انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا اور ہرموسو نے گواہی دی کہ بوسہ رضامندی سے نہیں تھا۔
حتیٰ کہ سپین کی مساوات کی وزیر آئرین مونٹیرو نے ہسپانوی معاشرے میں جنسی رویے کو معمول پر لانے کی وضاحت کی۔
یہ معاملہ خبروں میں ہے کیونکہ روبیلس کو جنسی زیادتی اور جبر کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں اڑھائی سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے تمام غلط کاموں سے انکار کیا ہے۔
کچھ لوگوں کو امید تھی کہ اس سزا سے سپین میں معنی خیز تبدیلی آئے گی ، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ہرموسو کی سپین ٹیم کی ساتھی اور بیلن ڈی اور کی فاتح آئتانا بونمتی نے کہا کہ عالمی سطح پر قومی ٹیم کی جیت کے باوجود ڈومیسٹک ویمنز فٹ بال کو اب بھی ’ہمیشہ کی طرح انہیں مسائل‘ کا سامنا ہے۔
بونمتی اور ان کی ٹیم کے ساتھی اسی سرخ قالین پر تھے جس پر پیر کو مگروزا تھیں، جہاں ٹینس سٹار کو ایک اور خاتون کھلاڑی کی عوامی سطح پر بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس رات کم از کم ایک درجن دیگر ریٹائرڈ مرد ایتھلیٹس بھی وہاں موجود تھے، اور میں اندازہ لگانا چاہوں گی کہ ان میں سے کسی سے بھی ان کے جسمانی وزن یا ان کی ظاہری شکل کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا گیا تھا۔
یہ ایک ایسا معیار ہے جس کا سامنا صرف خواتین کو اپنی پوری زندگی میں کرنا پڑتا ہے اور جب کھیلوں کی بات آتی ہے تو اس سے ان کی شرکت پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔
تحقیق نے ہمیں بتایا کہ لڑکیاں جسمانی تشخص سے متعلق پریشانیوں کی وجہ سے کھیلوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہیں اور حتیٰ کہ بڑی کامیابیاں حاصل کرنے والیوں کے ساتھ بھی یہ مسئلہ رہتا ہے۔
مارچ میں بی بی سی کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایک تہائی سے زائد ایلیٹ برطانوی خاتون کھلاڑیوں کو ڈس آرڈرڈ ایٹنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ کا کہنا تھا کہ یہ سوشل میڈیا پر ان کے نظر آنے کے انداز کے بارے میں بدسلوکی کا براہ راست نتیجہ ہے، دیگر کے بقول انہیں لگتا ہے کہ وہ اس طرح نظر نہیں آتے جیسے ایک ایتھلیٹ کو ’ہونا چاہیے‘۔
اس سال کے شروع میں انگلینڈ اور چیلسی کی مڈفیلڈر فران کربی نے بھی آن لائن باڈی شیمنگ، جس کا انہیں سامنا کرنا پڑا تھا، اور اس کے منفی اثرات کے بارے میں بات کی تھی۔
بہت کم لوگ کسی ایسے شخص سے وزن سے متعلق براہ راست سوال پوچھنے کی ہمت کریں گے جسے وہ نہیں جانتے۔ اگرچہ ایک صحافی اور اس وقت کی ایک خاتون صحافی کے لیے اس ماحول میں مگروزا سے اس طرح کا ذاتی سوال پوچھنا دخل اندازی اور ممکنہ طور پر نقصان دہ تھا۔
اپنے کیریئر کے دوران ، مگروزا نے فرنچ اوپن اور ومبلڈن دونوں جیتے ، اور وہ گرینڈ سلیم فائنل میں وینس اور سرینا ولیمز کو شکست دینے والی واحد خاتون ہیں۔
ان کے جسم نے انہیں ان بلندیوں تک پہنچنے میں مدد کی جن کا بہت سے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اس بات پر توجہ دینے کی بجائے کہ اس طرح کے شاندار کیریئر کے دوران ان کے جسم نے انہیں کیا حاصل کرنے کے قابل بنایا، توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ اب ان کا جسم کیسا نظر آتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ یہ کہنا ہی پڑتا ہے لیکن، اگر شک ہو تو ایک سادہ سا اصول اپنا لیں: خواتین سے ان کے وزن کے بارے میں کبھی نہ پوچھیں۔
© The Independent