پریس فریڈم انڈیکس: حکام کی جانب سے مداخلت بڑھ رہی ہے

آزادیِ صحافت کے عالمی دن کے موقعے پر رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں پریس کی آزادی کو وہی لوگ خطرے میں ڈال رہے ہیں جو اس کے ضامن ہونے چاہییں یعنی سیاسی حکام۔

 آٹھ دسمبر کو بیروت میں نیشنل میوزیم کی عمارت کے سامنے غزہ کی حمایت میں نکالی جانے والی ریلی کے دوران مظاہرین روئٹرز کے صحافی عصام عبداللہ (دائیں) اور المداین ٹی وی کی رپورٹر فرح عمر کی تصاویر کے ساتھ۔ یہ صحافی اسرائیل کے ساتھ لبنان کی سرحد پر بار بار فائرنگ کے تبادلے کی کوریج کے دوران مارے گئے تھے (اے ایف پی)  

آزادیِ صحافت کے عالمی دن کے موقعے پر صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے ’پریس فریڈم انڈیکس‘ کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سیاسی حکام کی جانب سے صحافت کی آزادی کو خطرہ لاحق ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر کے بعد غزہ پر اسرائیلی فوج کی جاری جارحیت کے دوران 100 سے زائد فلسطینی صحافیوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے ’صحافیوں اور میڈیا کے خلاف ریکارڈ تعداد میں خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ اسرائیلی افواج کے ہاتھوں 100 سے زائد فلسطینی صحافی مارے جا چکے ہیں جن میں سے کم از کم 22 اپنے کام کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔‘

ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے سروے میں شامل کل 180 ممالک اور خطوں میں سے فلسطینی علاقوں کا نمبر 157 ہے، جب کہ صحافیوں کی سلامتی کے حوالے سے یہ آخری 10 میں شامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درجہ بندی مرتب کرنے کے لیے استعمال ہونے والے پانچ اشاریوں میں سے سب سے زیادہ گراوٹ سیاسی اشاریے میں آئی ہے، جس کی عالمی اوسط میں 7.6 پوائنٹس کی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔

رپورٹ میں مصنوعی ذہانت کے بےجا استعمال پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے: ’قوانین کی عدم موجودگی میں، سیاسی مقاصد کے لیے فیک نیوز پیدا کرنے کے لیے جنریٹیو اے آئی کا استعمال تشویش کا باعث ہے۔ ڈیپ فیکس اب انتخابات پر اثر انداز ہونے میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔ اس کا ثبوت سلوواکیا میں پارلیمانی انتخابات کے دوران صحافی مونیکا ٹوڈووا کی آڈیو ڈیپ فیک سے ملتا ہے، جو جمہوری انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے مقصد سے کسی صحافی پر اس قسم کے حملے کے پہلے دستاویزی واقعات میں سے ایک ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’حکومتوں اور سیاسی حکام کی بڑھتی ہوئی تعداد صحافت کے لیے بہترین ممکنہ ماحول فراہم کرنے اور عوام کے قابل اعتماد، آزاد اور متنوع خبروں اور معلومات کے حق کے ضامن کے طور پر اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز میڈیا کی خودمختاری کی حمایت اور احترام میں تشویش ناک کمی اور ریاستوں یا دیگر سیاسی عناصر کی طرف سے دباؤ میں اضافہ دیکھتا ہے۔

عالمی درجہ بندی

حسبِ توقع سکینڈی نیویا کے ملک اس رینکنگ میں دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ رپورٹ میں ناروے کو آزادیِ اظہار کے طور پر دنیا بھر اول نمبر پر دکھایا گیا ہے، جب کہ ڈنمارک دوسرے اور سویڈن تیسرے نمبر پر ہیں۔

امریکہ میں بھی صحافیوں کی آزادی پچھلے ایک سال میں محدود ہوئی ہے اور وہ 45 سے دس درجے نیچے گر کر 55 تک پہنچ گیا ہے۔

البتہ انگلینڈ کی حالت تین درجہ بہتر ہوئی ہے۔

پاکستان کی درجہ بندی میں پچھلے سال کے مقابلے پر دو درجہ گرواٹ آئی ہے اور پاکستان 152ویں نمبر پر ہے۔ یہی صورت انڈیا کی بھی ہے اور وہ بھی 2023 کے مقابلے پر دو درجے تنزلی پا کر 161ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔

لیکن ہمارے مغربی پڑوسی کی پوزیشن میں کہیں زیادہ گری ہے اور 152 سے 178 تک پہنچ گئی ہے۔

لیکن شام اور ایریٹریا اس سے بھی نیچے ہیں یعنی علی الترتیب 179 اور 180ویں نمبر پر۔

ایران 176ویں اور چین 172ویں نمبر پر موجود ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا