پاکستان پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی نے گورنر خیبر پختونخوا کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے۔ آپ صوبے کے 36 ویں گورنر بن گئے ہیں۔
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے فیصل کریم کنڈی 2008 سے 2013 کے دوران قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہے، جب کہ انہوں نے پی ڈی ایم حکومت کے دوران وزیر اعظم کے مشیر کے طور بھی فرائض سر انجام دیے۔
1947 میں قیام پاکستان کے بعد سے خیبر پختونخوا، جسے ماضی میں شمال مغربی سرحدی صوبہ، این ڈبلیو ایف پی یا صوبہ سرحد کے ناموں سے جانا جاتا تھا، کے 35 گورنر صوبائی دارالحکومت پشاور میں گورنر ہاؤس کے نام سے جانی جانے والی پرشکوہ عمارت میں صدر مملکت کے نمائندوں کے طور پر براجمان رہ چکے ہیں، جب کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل برطانوی راج کے دوران (1932 سے 1947) صوبے پر سات سمندر پار سے آنے والے چھ انگریز باشندے گورنر کی حیثیت سے تعینات رہے۔
صوبائی گورنر کے اختیارات
آئین پاکستان کے آرٹیکل 101 کے تحت صوبائی گورنر کی تقرری صدر مملکت کی صوابدید ہے، جب کہ آرٹیکل 105 کے مطابق انہیں آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں متعلقہ صوبائی وزیر اعلیٰ یا کابینہ کے مشورے کے فرائض سرانجام دے گا۔
تاہم گورنر اس کو بھیجے گئے کسی معاملے سے متعلق صوبائی کابینہ یا وزیر اعلیٰ سے اس پر دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے اور نظر ثانی کے بعد پیش کردہ مشورے کے مطابق عمل کرنے کا پابند ہو گا۔
گورنر کو عام طور پر صوبے میں ایک رسمی عہدہ تصور کیا جاتا ہے، جس کے پاس زیادہ اختیارات نہیں ہوتے۔
پاکستان کی تاریخ میں کئی مرتبہ ایسے مواقعے آئے ہیں کہ مارشل لا یا صدارتی نظام حکومت یا پھر گورنر راج نافذ ہو، یا اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں صوبے کے انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے پاس آ جاتے ہیں۔
ماضی کے گورنرز
برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو پاکستان کے نام سے ایک نیا ملک کرہ ارض پر ابھرا، اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے سمیت تین دوسری وفاقی اکائیوں پر مشتمل تھا۔
صبح آزادی کے اگلے ہی روز یعنی 15 اگست کو آزادی کے باوجود ایک انگریز باشندےسر جارج کننگھم کو صوبہ سرحد کا گورنر مقرر کیا گیا، جو نو اپریل 1948 تک اس عہدے پر فائز رہے۔
سر جارج کننگھم تقسیم ہند سے قبل بھی دو مرتبہ صوبہ سرحد کے گورنر رہ چکے تھے، جب کہ وہ غیر منقسم ہندوستان کے ایڈمسنٹریٹر بھی رہے تھے۔
موجودہ خیبر پختون خوا کے دوسرے گورنر سر امبروز ڈنڈس فلکس ڈنڈس بھی انگریز تھے، جو 19 اپریل 1948 سے 16 جولائی 1949 تک اس عہدے پر ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔
سر جارج کننگھم اور امبروز ڈنڈس فلکس سرکاری ملازم تھے۔
صوبہ سرحد کو پہلا مقامی گورنر آزادی کے دو سال بعد میسر ہوا، جب 16 جولائی 1949 کو ایک قابل بیوروکریٹ اور صوبہ بلوچستان کے چیف سیکریٹری رہنے والے صاحبزادہ محمد خورشید کو اس عہدے پر تعینات کیا گیا۔ آپ محض چھ ماہ تک صوبہ سرحد کے گورنر رہے اور 14 جنوری 1950 کو انہیں عہدے سے ہٹا کر پشاور کے نواحی گاؤں جھگڑا سے تعلق رکھنے والے جسٹس (ر) خان بہادر محمد ابراہیم خان، جو قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگی رہنما تھے، کو قائم مقام گورنر کی حیثیت سے صرف ایک مہینے (14 جنوری سے 21 فروری 1950) کے لیے تعینات کیا گیا۔
جسٹس (ر) محمد ابراہیم کے پوتے تیمور سلیم خان جھگڑا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوران (اگست 2018 سئ جنوری 2023) خیبر پختون خوا کے وزیر خزانہ اور صحت کے طور فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
قائم مقام گورنر کے بعد 21 فروری 1950 کو ابراہیم اسماعیل چندریگر صوبے کے گورنر مقرر ہوئے، جو 23 نومبر 1951 تک عہدے پر فائز رہے۔
آئی آئی چندریگر کے نام سے مشہور ہونے والے ابراہیم اسماعیل جندریگر، جو پنجاب کے گورنر رہنے کے علاوہ پاکستان کے وزیر اعظم کے منصب جلیلہ پر بھی فائز رہے، پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے، جب کہ انہوں نے سفارت کاری میں بھی خدمات سر انجام دیں تھیں۔
مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے خواجہ شہاب الدین 24 نومبر 1951 کو خیبر پختون خوا کے چھٹے گورنر کی حیثیت سے نامزد ہوئے۔ انہوں نے 17 نومبر 1954 تک ذمہ داریاں نبھائیں۔
خواجہ شہاب الدین سابق وزیر اعظم اور پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے بھائی تھے۔
خواجہ شہاب الدین کے بعد خیبر پختون خوا کی گورنر شپ قربان علی شاہ کو ملی، جو اس منصب پر تقریباً ایک سال (17 نومبر 1954 سے 14 اکتوبر 1955) تک فائز رہے۔ آپ بلوچستان کے چیف کمشنر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے تھے۔
14 اکتوبر 1955 سے یکم جولائی 1970 تک ملک میں ون یونٹ کا اطلاق رہا اور مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے صوبے ضم ہو گئے اور صوبائی گورنر کا عہدہ بھی نہ رہا۔
یکم جولائی 1970 کو صوبے کی حیثیت کی دوبارہ بحالی پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خواجہ محمد اظہر خان کو صوبہ سرحد کا گورنر لگایا گیا۔ انہوں نے 25 دسمبر 1971 تک اس عہدے پر ذمہ داریاں نبھائیں۔
پاکستان کے سابق وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ سرحد اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے بڑے بھائی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما حیات خان شیرپاؤ 25 دسمبر 1971 کو سرحد کے نویں گورنر کی حیثیت سے مقرر کیے گئے۔
حیات خان شیرپاؤ، جو پاکستان پیپلز پارٹی کی بانی اراکین میں شامل تھے، ایک مشکل وقت میں صوبہ سرحد کے گورنر مقرر ہوئے، جب 1971 میں انڈیا کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں ملک مشرقی بازو سے محروم ہو گیا تھا۔
گورنر سرحد کے طور انہوں نے صوبائی اسمبلی کی دوبارہ تشکیل، سابق قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورت حال کو مستحکم کرنے اور 1975 میں افغانستان میں خفیہ کارروائیوں کی کامیابی سے نگرانی کی اور شدید سیاسی مخالفت کا سامنا کیا۔
آٹھ فروری 1975 کو پشاور یونیورسٹی میں ایک بم حملے کے نتیجے میں حیات خان شیرپاؤ جان سے چلے گئے تھے۔
پشاور کے نواحی علاقے تہکال کے بااثر ارباب خاندان کے چشم و چراغ ارباب سکندر خان خلیل 30 اپریل 1972 کو صوبہ سرحد کے اگلے گورنر مقرر ہوئے۔
15 فروری 1973 تک ذمہ داریاں نبھانے والے ارباب سکندر نے علی گڑھ سے قانون کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی، جب کہ وہ چھ کتابوں کے مصنف بھی تھے۔
اس وقت کے صوبہ سرحد کے اگلے گورنر ضلع کرک سے تعلق رکھنے والے محمد اسلم خان خٹک تھے، جو 15 فروری 1973 سے 24 مئی 1974 تک منصب پر فائز رہے۔
صوبہ سرحد کے معروف سیاستدان یوسف خٹک اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) حبیب اللہ خان، معروف سیاسی شخصیت، صعنت کار اور سوشل ورکر کلثوم سیف اللہ کے بھائی اور سابق وفاقی وزیر انور سیف اللہ اور صوبائی وزرا ہمایون سیف اللہ اور سلیم سیف اللہ کے ماموں اسلم خٹک صوبائی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے، جب کہ انہوں نے سفارت کار کے طور بھی خدمات سرانجام دیں۔
اسلم خٹک کے بعد میجر جنرل محمد غواث کو مختصر عرصے کے لیے صوبہ سرحد کا گورنر مقرر کیا گیا، جو 24 مئی 1974 سے یکم مارچ 1976 تک عہدے پر فائز رہے۔
ضلع نوشہرہ کے علاقے پیر پیائی سے تعلق رکھنے والے میجر جنرل (ر) نصیر اللہ خام بابر یکم مارچ 1976 سے چھ جولائی 1977 تک خیبر پختون خوا کے 13 ویں گورنر رہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے نصیر اللہ بابر نے بعد ازاں وفاقی وزیر داخلہ کے عہدے پر بھی خدمات سر انجام دیں، جس دوران انہوں کراچی میں امن و امان کی بحالی میں اہم کردادر ادا کیا۔
جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی 1977 کو ملک میں مارشل لا نافذ کیا اور چاروں صوبوں کے ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کو اپنے اپنے صوبے کا گورنر مقرر کیا اور یوں خیبر پختون خوا کے اگلے گورنر اس وقت کے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحکیم (چھ جولائی 1977 سے 17 ستمبر 1978) تک بنے۔ ان کا تعلق ضلع مانسہرہ کے مشہور سواتی قبیلے سے تھا۔
بعدازاں اکتوبر 1978 میں پختونخوا کی گورنری کا قرہ فال لیفٹیننٹ جنرل (ر) فضل الحق کے نام نکلا، جو تقریباً سات سال تک اس منصب پر فائز رہے۔
ضلع مردان سے تعلق رکھنے والے فضل حق کے ایک بھائی میجر جنرل فضل رازق واپڈا کے چیئرمین بھی رہے۔
فضل الحق کے بعد دسمبر 1985 میں مردان ہی سے تعلق رکھنے والے نوابزادہ عبدالغفور خان ہوتی صوبائی گورنر کی چوکی پر براجمان ہوئے اور 13 اپریل 1986 تک فرائض سر انجام دیے۔
نوابزادہ عبدالغفور خان ہوتی سابق آئی جی پی خیبر پختون خوا محمد اکبر خان ہوتی کے والد تھے۔
خیبر پختون خوا کے آئندہ گورنر چارسدہ سے تعقل رکھنے والے سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سید عثمان علی شاہ کو مقرر کیا گیا، جنہوں نے محض چار مہینے (اپریل سے اگست 1986) تک ذمہ داریاں سنبھالیں۔
سید عثمان علی شاہ کے بعد باری آئی پشاور شہر سے تعلق رکھنے والے علی گڑھ سے تعلیم یافتہ وکیل فدا محمد خان کی، جو اگست 1986 سے جون 1988 تک گورنر ہاؤس میں رہائش پذیر رہے۔
بریگیڈیئر (ر) امیر گلستان جنجوعہ 16 جوں 1988 کو خیبر پختون خوا کے گورنر مقرر ہوئے اور انہوں نے 19 جولائی 1993 تک یہ منصب سنبھالا۔
امیر گلستان جنجوعہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارت اور نیپال میں پاکستان کے سفیر بھی رہ چکے تھے، جب کہ ایران، نیپال اور اردن کی حکومتوں نے انھیں اپنے قومی اعزازات سے نوازا تھا۔
خیبر پختونخوا کے ضلع ملاکنڈ کی تحصیل درگئی سے تعلق رکھنے والے میجر جنرل (ر) خورشید علی خان جولائی 1993 سے نومبر 1996 تک گورنر کے عہدے پر فائز رہے، جب کہ ان کے بعد ضلع ہنگو سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ (ر) عارف بنگش نومبر 1996 سے اگست 1999 تک صوبے کے گورنر رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضلع ہنگو سے تعلق رکھنے والے پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس سید ابن علی صرف چھ روز (5۔11 نومبر 1996) کے لیے صوبے کے گورنر رہے، جب کہ 11 نومبر 1996 کو عارف بنگش کی اس عہدے پر تقرری ہوئی اور انہوں نے 17 اگست 1999 تک فرائض سر انجام دیے۔
ریاست سوات کے آخری حکمران میاں گل جہانزیب کے بڑے صاحبزادے اور سابق صدر پاکستان ایوب خان کے داماد میاں گل اورنگزیب نے 17 اگست 1999 کو گورنر کا عہدہ سنبھالا جو اکتوبر 1999 تک جاری رہا۔
میاں گل اورنگزیب کئی مرتبہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے علاوہ بلوچستان کے گورنر کی حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔
صوبے کے آئندہ گورنر کے طور لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد شفیق نے 21 اکتوبر 1999 کو چارج سنبھالا ، جب کہ ان کے ہٹائے جانے پر 15 اگست 2000 کو ضلع کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) افتخار حسین شاہ کو گورنر مقرر کیا گیا۔
15 مارچ 2005 تک گورنر کے طور تعینات رہنے والے افتخار حسین شاہ وفاقی وزیر مواصلات بھی رہ چکے ہیں، جب کہ ترکی میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھِی ذمہ داریاں نبھاتے رہے تھے۔
پاکستان نیوی کے سابق افسر کیپٹن خلیل الرحمن، جو کمانڈر خلیل کے نام سے زیادہ معروف تھے، نے 15 مارچ 2005 کو خیبر پختون خوا کے گورنر کے عہدے کا چارج لیا اور 23 مارچ 2006 تک فائز رہے۔ وہ بحرین نیوی کو کمانڈ بھی کرتے رہے تھے۔
سابق قبائلی ایجنسی اورکزئی سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی جان اورکزئی 23 مئی 2006 سے سات جنوری 2008 تک خیبر پختون خوا کے گورنر رہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے مکینیکل انجنیئر اویس احمد غنی جنوری 2008 سے فروری 2011 تک خیبر پختون خوا کے گورنر رہے۔ وہ بلوچستان کے گورنر کے طور بھی خدمات سر انجام دینے کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان سید بیرسٹر مسعود کوثر فروری 2011 سے فروری 2013 تک گورنر رہے۔ وہ زبان اردو کے مشہور و معروف شاعر احمد فراز کے بھائی تھے۔
سابق قبائلی ایجنسی باجوڑ سے تعلق رکھنے والے انجنیئر شوکت اللہ 10 فروری 2013 سے 13 اپریل 2014 تک خیبر پختون خوا کے گورنر رہے۔
ضلع ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ کے رہنما سردار مہتاب احمد خان عباسی 15 اپریل 2014 سے آٹھ فروری 2016 تک پشاور کے گورنر ہاؤس میں مقیم رہے۔ اس سے قبل وہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ اور پاکستان ریلویز کے وفاقی وزیر بھی رہ چکے تھے۔
پشاور کے نواحی گاؤں جھگڑا سے تعلق رکھنے والے اقبال ظفر جھگڑا چار مارچ 2016 سے 20 اگست 2018 تک صوبے کے گورنر رہے، جب کہ پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کے شاہ فرمان کو پانچ ستمبر2018 کو خیبر پختون خوا کا گورنر مقرر کیا گیا۔ وہ 11 اپریل 2022 تک عہدے پر فائز رہے۔
23 نومبر 2022 کو جمعیت علمائے اسلام کے حاجی غلام علی، جو جمعیت کے مرکزی رہنما مولانا فضل الرحمان کے سمدھی بھی ہیں، کو گورنر مقرر کیا گیا، جن کا عہدہ اتوار کو اپنے اختتام کو پہنچا۔
ان شخصیات کے علاوہ دوسرے کئی سیاست دان، فوجی افسران اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد خیبر پختونخوا میں قائم مقام گورنروں کی حیثیت سے تعینات ہوتے رہے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔