گلگت بلتستان کا ضلع دیامر ان دنوں ایک نئے کاروبار کا مرکز بن چکا ہے۔ دریائے سندھ کی زمین کے ساتھ ساتھ لوگوں نے اپنی نجی زمینیں بھی کھود ڈالی ہیں اور سو سے زائد شاور مشینیں دن رات کھدائی کر رہی ہیں اور سینکڑوں لوگ اس کاروبار سے منسلک ہیں۔
انہی میں ایک عثمان غنی بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے یہ کام گلگت اور اٹک میں ہو رہا تھا جس کی دیکھا دیکھی ہمارے لوگوں نے بھی شروع کر دیا۔
ایک مشین لگانے، وہاں سے مٹی کی تہہ ہٹا کر نیچے ریت کی تہہ تک رسائی حاصل کرنا، پھر جنریٹر لگانا، یہاں پانی کا تالاب بنانا، اس سارے عمل میں ابتدائی طور پر 25 لاکھ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔
’پھر روزانہ کا خرچہ تقریباً 70 ہزار روپے آتا ہے۔ ایک مشین روزانہ 10 گرام سے 30 گرام تک سونا نکال لیتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں سرکاری اداروں کی جانب سے ابھی تک کسی قسم کی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ جہاں یہ مشینیں لگائی گئی ہیں وہ ہماری نجی ملکیت میں ہیں، ویسے بھی یہاں قبائلی نظام ہے اور سرکار ہمارے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی۔
دنیا میں دو تہائی سونا دریاؤں اور سمندروں سے نکالا جاتا ہے
ریت سے سونا چھاننے کا عمل دنیا میں نیا نہیں ہے۔ امریکہ کے جیالوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق دنیا میں دو تہائی سونا کانوں سے نہیں سمندروں اور دریاؤں کی ریت چھان کر نکالا جا رہا ہے اور یہ عمل دنیا میں چھ ہزار سال سے جاری ہے۔
امریکہ ریت سے سونا چھاننے کے عمل میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا میں سونے کی پیداوار میں چین 455 میٹرک ٹن کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ پھر آسٹریلیا، روس، امریکہ کا نمبر آتا ہے۔
وسطی ایشیا میں قزاقستان اور ازبکستان بھی دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہیں جہاں وسیع پیمانے پر سونا نکالا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی وہی پہاڑی سلسلے پھیلے ہوئے ہیں جو قزاقستان اور ازبکستان تک جاتے ہیں اس لیے یہاں بھی سونے کے وسیع ذخائر کا ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔
دریائے سندھ میں سونے سے بھی قیمتی دھاتیں موجود ہیں
ماہر ارضیات محمد یعقوب شاہ پاکستان میں معدنیات بالخصوص دریائے سندھ میں سونے کی موجودگی پر کام کر رہے ہیں اور ایک پرائیویٹ فرم ’گلوبل مائننگ کمپنی‘ سے منسلک ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دریائے سندھ کی ڈیرہ اسماعیل خان تک لمبائی ایک ہزار کلومیٹر سے زائد بنتی ہے جہاں سونے کی موجودگی پائی گئی ہے۔ صرف دریائے سندھ ہی نہیں بلکہ اس میں گرنے والے معاون دریا بھی بڑی مقدار میں سونے کے ذرات لے کر آ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرا فوکس تربیلا ڈیم سے غازی بروتھا تک رہا ہے۔ یہاں دریا کے دونوں اطراف اور دریا کی تہہ میں چار سو فٹ کا ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں سونے کی موجودگی پائی گئی ہے۔‘
محمد یعقوب شاہ نے بتایا کہ ’مقامی سطح پر سونا چھاننے کا عمل اتنا سائنسی نہیں ہے جس کی وجہ سے آدھا سونا دوبارہ دریا میں چلا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بعض لوگ اب تو سونا چھاننے کے عمل میں بچ جانے والی کالی مٹی اور ریت بھی مہنگے داموں خرید کر غیر ملکیوں کو بیچ رہے ہیں کیونکہ اس میں سونے سے بھی زیادہ قیمتی دھاتیں ہیں۔
’مجھے ایک امریکی ماہر ارضیات نے بتایا کہ اگر آ پ کو معلوم ہو جائے کہ سونا چھاننے کے عمل میں بچ جانے والی کالی مٹی کتنی قیمتی ہے تو آپ کو دل کا دورہ پڑ جائے۔‘
حکومت سروے کروا رہی ہے
اس حوالے سے جب وزارت انرجی پیٹرولیم ڈویژن کے ڈائریکٹر منرلز عبدالسلام ساجد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آئینی طور پر معدنیات صوبائی معاملہ ہے۔ صوبے ہی اس کی ترقی اور لیزنگ کے ذمہ دار ہیں۔
’پاکستان میں 92 کم یاب دھاتیں موجود ہیں جن میں سے بعض سونے سے کئی گنا مہنگی ہیں۔ دریائے سندھ میں ان کے ذخائر موجود ہیں۔
’پنجاب حکومت پاکستان منرلز ڈویلپمنٹ کارپوریشن سے ایک سروے کرا رہی ہے جس کی رپورٹ جون تک آئے گی اس کے بعد ہی صحیح ڈیٹا مل سکے گا کہ دریا میں کتنا سونا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وفاق کو چیلنج درپیش ہے کہ معدنیات کے معاملے میں اس کا اختیار صرف عمومی پالیسی اور عالمی کمپنیوں سے ایم او یوز تک محدود ہے، باقی اختیار صوبوں کے پا س ہے۔‘
سرمایہ کار آ نہیں رہا اور مقامی لوگوں سے بھی روزگار چھین لیا گیا
اس سال فروری میں پنجاب کے نگران وزیر حسن مراد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دریائے سندھ میں اٹک کے مقام پر دریا کی ریت میں 600 ارب روپے کا سونا موجود ہے۔
اس بیان سے پہلے بھی مقامی لوگ ریت سے سونا نکالنے کا عمل نجی طور پر جاری رکھے ہوئے تھے۔
درجنوں شاور مشینیں عین اس مقام پر جہاں دریائے سندھ اور دریائے کابل کے سنگم کنڈ کے مقام پر لگی ہوئی ہیں جن کے خلاف پنجاب اور خیبر پختونخوا پولیس نے گذشتہ دنوں بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرتے ہوئے گرفتاریاں کی ہیں اور ان کی مشینیں ضبط کی ہیں۔
محمد یعقوب شاہ نے بتایا کہ ’آج تک سائنسی بنیادوں پر دریائے سندھ میں ایسا کوئی سروے نہیں ہوا جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ دریا کی تہہ میں سونے کی درست مقدار کیا ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کا معدنیات کا ڈیپارٹمنٹ دریائے سندھ میں سونا نکالنے کا ٹینڈر چوتھی بار شائع کر چکا ہے۔
’اس نیلامی کی شرائط اتنی کڑی ہیں کہ کسی نے بھی ابھی تک دلچسپی نہیں دکھائی۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب آپ ٹینڈر دیتے ہیں تو ساتھ مکمل ڈیٹا بھی دیتے ہیں کہ اس بلاک میں اتنی چوڑائی اور لمبائی میں اتنا سونا موجود ہے۔
’یہ ڈیٹا بھی آپ کے پاس نہیں ہے، بطور زر ضمانت کروڑوں روپے پیشگی طلب کیے جا رہے ہیں اور ساتھ نکلنے والے سونے میں حصہ بھی مانگا جا رہا ہے تو پھر کون ہو گا جو اس خام ڈیٹا پر اتنی بھاری سرمایہ کاری کرے گا؟
’اب اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مقامی سطح پر جو لوگ کھدائیاں کر رہے تھے وہ عمل بھی رک گیا ہے کیونکہ پولیس آئے روز چھاپے مارتی ہے۔ بڑا سرمایہ کار آ نہیں رہا کیونکہ آپ کے پاس ڈیٹا نہیں ہے۔‘
ہم نے منرلز ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا سے رابطہ کر کے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی مگر تاحال ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ معدنی وسائل کو ترقی دے کر استعمال کر سکے تو پھر وہ لوگ جو مقامی سطح پر یہ کام کر رہے ہیں، انہیں کرنے دیا جائے۔
’کیونکہ اس سے کم از کم ان کی زندگیاں تو روزگار ملنے کی وجہ سے بدل رہی ہیں اور سونا بھی نکل رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ غیرملکی کمپنیوں کو ٹھیکے دینے کی بجائے بہتر یہی ہو گا کہ مقامی لوگوں کو کام کرنے دیا جائے۔