پاکستان کی برسر اقتدار جماعت مسلم لیگ ن کی جانب سے قائد جماعت نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کی تیاریاں جاری ہیں اور اس ضمن میں پہلے 11 مئی لیکن اب 28 مئی کو جنرل کونسل اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
عام طور پر ملک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جو سیاسی جماعت اقتدار میں ہو اسے سیاست کی بجائے حکمرانی کے ذریعے عوام میں مقبولیت پر توجہ دینا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ جماعت جو اقتدار میں آئے اسے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے انہیں حل کرنے کی جدوجہد کرتے دیکھا جاتا ہے۔
اگرچہ مسلم لیگ ن وفاق اور پنجاب میں حکومت بنا چکی ہے اس کے باوجود تنظیمی طور پر پارٹی تبدیلیوں کی خواہاں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ن لیگ وزیراعظم شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹا کر نواز شریف کو دوبارہ صدر کیوں منتخب کرنا چاہتی ہے؟
اس حوالے سے مسلم لیگ کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ اس جماعت کا نام بھی نواز شریف سے منسوب ہے اور ووٹ بینک بھی انہی کا ہے اس لیے پارٹی سربراہی بھی باقاعدہ انہی کے پاس ہونی چاہیے۔
مسلم لیگ (ن) ایک پرانے کارکن اور رہنما میاں مرغوب احمد کے بقول ’ہم اس عہدے پر نواز شریف کو دوبارہ اس لیے منتخب کرنا چاہتے ہیں کہ ان طاقتوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے جنہوں نے 2017 میں نواز شریف کو جھوٹے مقدمات کے ذریعے وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت کے عہدے سے ہٹانے کی سازشیں کی تھیں۔‘
میاں نواز شریف نے حالیہ عام انتخابات سے قبل کہا تھا کہ انہیں چوتھی بار وزیر اعظم کا عہدہ اسی صورت میں قبول ہوگا جب ان کی جماعت کم از کم سادہ اکثریت سے کامیاب ہو گی۔
مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت تو نہ مل سکی البتہ انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کومخلوط حکومت کا وزیراعظم جبکہ اپنی بیٹی مریم نواز کو ملک کے بڑے صوبے پنجاب کا وزیر اعلی بنوایا اب بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں تو ان کی زیر قیادت ہی چل رہی ہیں لیکن ایسے میں انہیں پارٹی صدارت لینے سے متعلق سوالات ضرور جنم لے رہے ہیں۔
نواز شریف کو سیاسی محاذ گرم کرنے کے لیے صدر بنایا جا رہا ہے؟
مسلم لیگ ن کے رہنما شیخ روحیل اصغر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں پارٹی صدر منتخب کرانے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ جہاں تک ان کو دوبارہ اس عہدے پر فائز کرنے کی ضرورت کا سوال ہے تو پارٹی انہی کے نام سے ہے، ووٹ بینک انہی کا ہے۔ لوگ ان کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں یہاں تک کہ وفاق اور صوبائی حکومت بھی ان کے نام پر ملنے والے ووٹوں کے نتیجے میں بنی ہے۔‘
’ان کے عہدے سنبھالنے پر پارٹی کی مقبولیت اور عوامی حمایت میں کتنا اضافہ ہوتا ہے یا عوامی مسائل حل کرنے میں کتنی مدد ملتی ہے یہ تو ان کے عہدہ سنبھالنے پر ہی معلوم ہو گا، اس کے علاوہ حکومتی امور میں ان کے تجربے سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یہ بھی اہم صورتحال ہو گی۔‘
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے میاں مرغوب احمد نے کہا کہ ’جس طرح نواز شریف کے خلاف کئی سال مہم چلائی گئی، ان کے خلاف من گھڑت جھوٹے بیانیے بنے اور کیس بنائے گئے، ناحق جیلوں میں بند رکھا گیا، وقت نے ان سارے کرداروں کو بے نقاب کردیا اور میاں صاحب کی بے گناہی بھی انہی عدالتوں سے واضح ہو گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف کی ملک کے لیے طویل خدمات ہیں انہیں مائنس کرنے کا خواب دیکھنے والے خود مائنس ہو گئے، لہذا ہماری پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں دوبارہ پارٹی صدر بنایا جائے جن کے نام سے پارٹی ہے اور ووٹ بینک ہے۔ یہ کوئی ضرورت نہیں بلکہ اپنے قائد کو خراج تحسین ہے جو ان کا حق بنتا ہے۔‘
’اس حوالے سے جنرل کونسل کا اجلاس جو 11 مئی کو بلایا گیا تھا اب وہ 28 مئی کو ہوگا کیونکہ اسی دن 1998 کو بطور وزیر اعظم نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کر کے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا تھا۔ لہذا یوم تکیبر کو ہی انہیں پارٹی صدر دوبارہ بنا کر ان کی قابلیت اور اہمیت کا اعتراف کیا جائے گا۔‘
پارٹی منظم کرنے میں کتنی مدد مل سکتی ہے؟
میاں مرغوب احمد کے بقول، ’ویسے تو حالیہ انتخاب میں ن لیگ نے کامیابی حاصل کی ہے لیکن جس طرح پہلے وفاق میں ہماری جماعت اکیلے حکومت بناتی آئی ہے وہ نتائج نہیں مل سکے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف سمیت ہماری ساری قیادت کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہوتی رہیں انہیں کئی سال لندن گزارنا پڑے۔ اس لیے پارٹی اس طرح منظم نہیں رہی جس طرح ماضی میں ہوتی تھی۔ ان کے دوبارہ صدر بننے سے ایک بار پھر ملک بھر میں عہدیداروں کو متحرک کیا جاسکے گا۔ مختلف حلقوں میں پارٹی امیدواروں سے مشاورت کر کے عوامی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’عہدہ سنبھال کر شاید وہ جلسے وغیرہ تو نہ کریں البتہ رہنماؤں اور کارکنوں سے ملاقاتوں میں ان کے تحفظات ضرور ختم کیے جا سکیں گے۔ ان کے ساتھ دیگر پارٹی رہنماوں کو بھی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی تاکہ وہ بھی اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔‘
شیخ روحیل اصغر کے مطابق، ’میاں صاحب چاہتے ہیں کہ پارٹی رہنماؤں کو متحرک رکھا جائے لیکن جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں ہوتی ہے اس کی پہلی ذمہ داری عوامی مسائل حل کرنا ہوتا ہے۔ لہذا نواز شریف کو صدر بنانا اسی کا شاخسانہ ہے کہ کس طرح بہتر ڈیلیور کیا جائے، نئے پارٹی عہدیداروں کی تقرری بھی اسی بنیاد پر کی جائے گی۔‘
’جو پارٹی رہنما حکومت سے باہر ہیں انہیں کیا ذمہ داریاں دی جاتی ہیں وہ فیصلہ بھی انہی نے کرنا ہے۔ پارٹی میں کس کو کیا ذمہ داری دینی ہے اس کا فیصلہ بھی نواز شریف نے کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انہیں صدر بنانے کا بنیادی مقصد تو یہ ہے کہ وہ عوامی لیڈر ہیں، حالیہ انتخاب تو ہو گئے اب آئندہ انتخابات کے لیے تیاری بھی ناگزیر ہے تاکہ ہم پہلے کی طرح زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کر سکیں۔‘