اقوام متحدہ میں جمعے کو جنرل اسمبلی کی جانب سے فلسطین کی مکمل رکنیت تسلیم کیے جانے پر حمایت ملنے کا امکان ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل میں امریکہ کی جانب سے ویٹو کیے جانے کے بعد فلسطین اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے کی اپنی کوششیں دوبارہ شروع کر رہا ہے۔
یہ فیصلہ فلسطین کو بطور ریاست اقوام متحدہ رکنیت کا اہل تسلیم کیے جانے اور سلامتی کونسل کی جانب سے اس معاملے پر مثبت نظرثانی کرنے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
جمعے کو 193 رکنی جنرل اسمبلی میں ہونے والی رائے شماری فلسطینیوں کی حمایت کے عالمی سروے کے طور پر کام کرے گی۔ اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے کی درخواست کو پہلے سلامتی کونسل اور پھر جنرل اسمبلی سے منظور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگرچہ جنرل اسمبلی اکیلے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت نہیں دے سکتی، لیکن جمعے کو پیش کی جانے والی قرارداد کے مسودے پر ستمبر 2024 سے فلسطینیوں کو کچھ اضافی حقوق اور مراعات ملیں گی - جیسے اسمبلی ہال میں اقوام متحدہ کے ارکان کے درمیان نشست - لیکن اسے اقوام متحدہ میں ووٹنگ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مسودے کے متن کو منظور کیے جانے کے لیے درکار حمایت ملنے کا امکان ہے۔
اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے فلسطینیوں کی کوششیں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے سات ماہ جاری رہنے اور ایک ایسے وقت کی جا رہی ہیں جب اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں میں توسیع کر رہا ہے، جسے اقوام متحدہ غیر قانونی قرار دیتا ہے۔
فلسطینی اس وقت اقوام متحدہ میں ایک غیر رکن مبصر ریاست کے طور پر موجود ہے۔
اگر ہمیں تنہا کھڑا ہونا پڑے تو ہم کھڑے ہوں گے: نتن یاہو
ادھر اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیار فراہم نہ کرنے کے بیان پر کہا ہے کہ اگر ہمیں اکیلے کھڑا ہونا پڑا تو ہم اکیلے کھڑے ہوں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کی جانب سے رفح میں اسرائیلی جارحیت کے لیے اسرائیل کو ہتھیار نہ فراہم کرنے کی بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر جو بائیڈن کے عوامی بیان کے بعد نتن یاہو نے امریکی اعلان کا حوالہ دیے بغیر کہا کہ ’اگر ہمیں تنہا کھڑا ہونا پڑا تو ہم اکیلے کھڑے ہوں گے۔‘
لیکن نتن یاہو نے امریکی ٹیلی ویژن سے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ اور صدر بائیڈن غزہ جنگ پر اپنے اختلافات پر قابو پا لیں گے۔
نتن یاہو نے کہا: ’ہمارے درمیان اکثر اتفاق رہتا ہے لیکن کبھی اختلافات بھی ہوتے ہیں اور ہم ان پر قابو پا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ اب ہم ان (اختلافات) پر قابو پا لیں گے لیکن ہم اپنے ملک کی حفاظت کے لیے جو کرنا ہے وہ کریں گے۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں تقریباً سات ماہ سے جاری جارحیت کے دوران بدھ کو پہلی بار واضح الفاظ میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر رفح پر حملہ کیا گیا تو وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دیں گے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جو بائیڈن نے اس حقیقت پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ فلسطینی علاقے پر امریکی بم استعمال کرنے سے عام شہریوں کی جانیں گئیں۔
صدر جو بائیڈن کا یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل نے مصر کی سرحد کے قریب پناہ لینے والے فلسطینی بے گھر افراد سے بھرے شہر رفح پر حملے شروع کر دیے ہیں۔
فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ٹینکوں اور جنگی جہازوں نے جمعرات کو رفح کے علاقوں پر حملے کیے، جس میں اب تک تین اموات ہو چکی ہیں۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس کے جنگجو رفح میں چھپے ہوئے ہیں، جہاں اس وقت غزہ کے ہزاروں باشندوں نے بمباری سے پناہ حاصل کی ہوئی ہے۔
ادھر اسرائیلی وزیر دفاع گیلانٹ نے ایک تقریر میں کہا: ’میں اسرائیل کے دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنے بہترین دوستوں کی طرف بھی رجوع کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اسرائیل کی ریاست کو زیر نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مضبوط کھڑے ہوں گے، ہم اپنے مقاصد حاصل کریں گے۔ ہم حماس اور (لبنان میں) حزب اللہ کو نشانہ بنائیں گے اور ہم امن حاصل کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنگی کابینہ کے ایک اور رکن بینی گانٹز نے اسرائیلی فوج کی جنگ میں بے مثال امریکی مدد اور رسد کی تعریف کی۔
انہوں نے ایکس پر جاری اپنی پوسٹ میں لکھا: ’قومی سلامتی اور اخلاقیات کے لحاظ سے اسرائیل کا فرض ہے کہ وہ اپنے یرغمال شہریوں کی واپسی اور جنوبی اسرائیل کے خلاف حماس کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے لڑتا رہے اور یہ امریکہ کا بھی اخلاقی اور سٹریٹجک فرض ہے کہ اسرائیل کو وہ آلات فراہم کریں جو اس مشن کے لیے ضروری ہیں۔‘
امریکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان مصر اور قطر کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے جس سے کچھ قیدیوں کو رہا کیا جا سکتا ہے۔
اسرائیل حماس کے غزہ جنگ کے خاتمے کے مطالبے کو مسترد کر چکا ہے جب کہ اسرائیل صرف (عارضی) فائر بندی پر آمادہ ہے۔
جمعرات کو مذاکرات کار قاہرہ میں ہونے والی تازہ ترین ملاقاتوں کے بعد کسی نتیجے پر نہیں پہنچے جس کے بعد اسرائیل نے کہا کہ وہ اپنے رفح آپریشن کے منصوبے کو آگے بڑھائے گا۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے ایک بریفنگ میں کہا کہ مسلح افواج کے پاس رفح اور دیگر کارروائیوں کے لیے کافی اسلحہ موجود ہے۔